دین کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے :
1 عقائد جیسے ایمان باللہ توحید رسالت، قیامت
2 عبادات جیسے نماز روزہ
3 معاملات جیسے خرید وفروخت کا نظام وغیرہ
4 اخلاقیات جیسے جودوسخا وغیرہ
5 آداب معاشرت جیسے :لوگوں سے اچھا سلوک کرنا وغیرہ ۔
اول الذکر دو باتوں کو تو سب دین سمجھتے ہیں تیسری بات یعنی معاملات کوبھی بعض نے دین سمجھا ہے چوتھی بات یعنی اخلاقیات کو بھی بعض نے دین میں شامل کررکھاہے لیکین پانچویں بات یعنی آڈاب معاشرت کو تقریباً سب ہی نے دین سے خارج سمجھ رکھا ہے اورا س میں اپنی مرضی کے مالک بنے ہوئے ہیں حالانکہ معاشرے کی درستگی اور بگاڑ اسی پر موقوف ہے ۔
آداب معاشرت ہمارے روزمرہ کے معاملات ہیں کہ بڑوں کے ساتھ کیسے رہناہے ؟ رشتے داروں اور پڑوسیوں کے کیا حقوق ہیں ؟ اپنے ہم جماعتوں اور دوستوں کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرناہے وغیرہ وغیرہ ۔ آداب معاشرت کا باب بہپت وسیع بھی ہے اور نازک بھی ، جس پر علماء کرام نے مستقل کتابیں لکھیں ہیں لیکن ہم اس سے بہت دور ہیں ۔ ہم آداب معاشرت میں سے صرف ایک بات ملاقات پر نظر ڈالیں تو اپنے اندر سینکڑوں خامیاں پائیں گے۔ آئیے ! ملاقات کے چند آداب سیکھ لیتے ہیں ۔
مسکرا کر ملیے : حدیث میں ہے کہ ” جہنم سے بچو ( صدقے کے ذریعے ) اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہواور جو اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ خوش کلامی اختیار کرے “
ایک مرتبہ آپ ﷺ نےا بو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” تو ( چھوٹی )نیکیوں کو ( بھی) حقیر نہ سمجھ اگر چہ وہ مسکر کر ملنا ہو۔”
ایک شاعر کہتے ہیں
مسکر ا کر لے لیجئے صدقے کا ثواب
مسکرانا بھی مومن کا سستا نہیں
ایذاء نہ دیجئے !
جب کسی سے ملاقات کریں تو ایسا انداز اختیار کرنا چاہیے جس سے ایک مومن کا دل خوش ہوجائے ۔ مصافحہ اور معانقہ اس کی بہترین دلیل ہے جس کسی سے ملاقات کرنی ہو تواس کی راحت رسانی کا نہایت خیال رکھاجائے بے وقت یا کسی مشغولیت کے اوقات میں یا کوئی قصداً تنہائی میں بیٹھا ہو تو ملاقات نہ کی جائے بلکہ اس کی فراغت کا انتظار کیاجائے بہتر یہ ہے کہ اس سے ملاقات کا وقت لے لیاجائے ۔ملاقاتی سے بے جا سوالات نہ کیے جائیں اور جس سے بے تکلفی نہ ہو اس کے پاس زیادہ نہ ٹہرا جائے ۔ غرض کوئی ایسا کا م نہ کیجئے جس سے ملاقاتی کو ایذاء ہو ۔
پہلے سلام :
ہمیشہ کلام کی ابتداء سلام سے کرنی چاہیے اگر چہ فون پر ہو۔ا حادیث میں سلام میں پہل کرنے والے کے لیے ثواب کی زیادتی اور تکبر سے براء ت کی خوشخبری آئی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” بہترین شخص وہ ہے جو سلام میں پہل کرے “
سلام دعا کیجئے !
سلام کو دعا کو عام کیاجائے اورا س کو ملاقات اور ابتدائے کلام میں رواج دیاجائے ۔
آپ ﷺ نے فرمایا : افشوا لسلام تسلموا ” سلام کو پھیلاؤ سلامتی میں رہوگے ۔ا س سے معلوم ہوا کہ سلام عام کرنا انسانی حفاظت کا بہترین وظیفہ ہے ۔
آپ ﷺ افشائے سلام کے اتنے خواہش مند تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
” جب تم آپس میں ملو توسلام کرو اور اگر ( ساتھ چل رہے ہو اور بیچ میں درخت یا دیوار یا ( بڑ ا) پتھر آجائے اور پھر مل تو ( پھر ) سلام کرو )
کون کس کو سلام کرے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا : ” چھوٹا بڑے کو ، سوار پیدل کو، کھڑ ا بیٹھے ہوئے کو اور کم زیادہ کو سلام کریں “۔ البتہ کافر کو سلام نہ کیاجائے حدیث میں اس کی ممانعت ہے اگر وہ سلام کرے تو جواب میں صرف ” وعلیکم ” کہنا چاہیے جب کسی کا سلام پیش کیاجائے تو جواب میں علیھم وعلیکم السلام ” کہنا چاہیے ۔ خطوط کے سلام کا جواب زبانی یا تضریری جس طرح دینا چاہے اختیار ہے لیکن دونوں طریقوں کو جمع کرنا بہتر ہے ،
سلام سب کے لیے :
آج کل چھوٹوں کو سلام کرنے میں عار محسوس کی جاتی ہے جو کہ غلط ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ایک دفعہ چھوٹے بچوں پر گزر ہو ا تو آپ نے انہیں سلام کیا اور فرمایا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے ۔”
البتہ چھوٹوں کے خطوط میں سلام کے ساتھ دعا بھی لکھ دی جائے ۔ سلام ہر متعارف اور غیر متعارف کو کرنا چاہیے یعنی تعارف ہو یا نہ ہو اخلاص یہ ہے کہ اپنے اور پرائے سب کو سلام کیاجائے ۔
راحت رسانی کا خیال رکھیے :
سلام کرنا سنت اور جواب دینا واجب ہے لیکن جب کوئی شرعی ی اطبعی ضروریات میں مشغول ہو اور سلام کرنے میں تکلیف یا الجھن کا اندیشہ ہو جیسے : کوئی نماز، تلاوت ، ذکر، طعام ، اہم گفتگو، مجلس، وعظ ، درس وغیرہ میں مشغول ہو توا یسے وقت نہ سلام سنت ہے نہ جواب واجب ہے ۔ آپ ﷺ سلام میں راحت رسانی کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ جب گھر میں رات کو داخل ہوتے تو آہستہ سلام کرتے تاکہ سونے والے تکلیف سے محفوظ رہیں اور جاگنے والے جواب دیں ۔
اشارے سے سلام :
آپ ﷺ سے ہاتھ کے اشارے سے بھی سلام کرنا ثابت ہے لیکن یہ اس وقت ہے جب کوئی دور ہو اور آواز نہ پہنچ سکتی ہو لیکن اس حال میں بھی زبان سے آہستہ سلام کہنی چاہیے ا ور دوسرا شخص بھی اشارے کے ساتھ سلام کا جواب دے ۔
تین اہم آداب: جب کئی لوگوں میں سے ایک شخص سلام کردے یا ایک شخص جواب دے دے تو سب کی طرف سے کافی ہے لیکن سب لوگوں کا جواب دینا بہتر ہے ۔ جب خالی مکان یا دوکان میں جائیں تب بھی سلام کرنا چاہیے کیوں کہ وہاں بھی فرشتے اور دوسری مخلوقات ہوتیں ہیں ۔ مجلس کےا ختتام پر آپس میں علیحدگی کے وقت اور کال ( فون ) کے اختتام پر بھی سلام کرنا چاہیے آج کل اس کو انوکھا سمجھاجاتا ہے ۔
یہ تھے ہماری ملاقات کے آداب جن کی ضرورت ہمیں بیسیویں مرتبہ پیش آتی ہے اور ہم اس سے بے حد غافل ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم اپنے معاملات پر نظر دوڑائیں تو اپنے اندر خامیاں ہی خامیاں پائیں گے۔ آداب معاشرت کی جب اصلاح کی خاطر حکیم الامت مجددالملت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے ایک کتاب ” آداب المعاشرت ” کے نام سے تصنیف فرمائی ہے ۔ اگر ہم ان آداب کو اپنی زندگی میں شامل کرلیں تو دنیا میں جنت کا مزہ ملنے لگے گا جیسے ایک شاعر نے کہا ہے :
بہشت آنجا کہ آزار نہ باشد
کسے را با کسے کا رے نبا شد
(جنت وہ جگہ ہے جہاں کوئی رنج نہیں اور وہاں کسی کو کسی سے کوئی کام نہیں )