دین کیسے تبدیل ہوتا ہے

نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
تَبٰرَکَ الَّذِی بِیَدِہٖ المُلکُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شیْی قَدِیْر الَذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْر o (سورہ ملک آیت: ۱،۲، پارہ ۲۹)
کون سا عمل اچھا ہے:
میرے محترم دوستو! اﷲ کے آخری نبی حضرت محمدﷺکواﷲ نے کائنات میں سب انبیاء کے بعد بھیجا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح مقدسہ کوتخلیق سے پہلے وجود بخشا ہے ۔ اﷲ  قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ’’ اﷲ نے زمین و آسماں میں جو کچھ بنایا ہے اس لیے بنایا ہے کہ وہ تمہیں آزمانا چاہتے ہیں کہ تم میں کون اچھے عمل کون کرتا ہے۔ تمہیں دیکھنا چاہتے ہیں کہ تم اچھے عمل کرتے ہو یا نہیں۔‘‘ (الملک، آیت۲ ،پارہ ۲۹)
جب اﷲ نے یہ سب کچھ اس لیے بنایا ہے کہ ہم اچھے عمل کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا عمل اچھا ہوگا جو اﷲ کو پسند ہو جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ اچھا عمل ہے؟
اﷲ کی عادت شریفہ یہ ہے کہ اﷲ جس حکم کو انسان پر لازم کرتے ہیں اس کے لیے نمونہ ضرور دیا کرتے ہیں۔ بغیر نمونے کے اﷲ جل شانہ کبھی کوئی حکم لازم نہیں کیا کرتے۔ کیونکہ اﷲ کو بندوں کی کمزوری کا علم ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ میرے بندے کمزور ہیں۔ اس لیے ان کو کوئی نہ کوئی ایسا نمونہ ملنا چاہیے کوئی نہ کوئی ایسا عمل والا ملنا چاہیے کہ جس کے عمل کو دیکھ کر یہ اپنے عمل اس جیسے بنا لیں گے۔ اس کے عمل اﷲ کو پسند ہیں اس طرح ان کے عمل بھی اﷲ کو پسند آجائیں گے۔ اس کو اﷲ نے اپنے قرآن میں بتلا دیا ہے : لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ (الممتحنہ:۴) ’’لوگو! تمہارے لیے بہترین نمونہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔‘‘
اﷲ کے نبی بہترین نمونہ ہیں ،اب تمہیں اپنا عمل اچھا بنانا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنے اعمال نبی جیسے بنا لو۔ اگر تمہارے اعمال اﷲ کے نبی جیسے ہوں گے۔ تو پھر خود فیصلہ کر لو کہ واقعی اﷲ کو تمہارے عمل پسند آگئے۔ اﷲ کو تمہاری شکل و صورت پسند آگئی۔ اﷲ کو تمہاری ہر چیز پسند آگئی۔
حق کو جانچنے کا پیمانہ :
حق کے جانچنے کا پیمانہ اور حق کو پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ ہمارے اعمال اﷲ کے نبی جیسے ہوجائیں اور اﷲ کے نبی کے اعمال کیسے تھے، صحابہ vکی زندگیوں کو دیکھنا ہوگا۔ صحابہ vکی زندگیاں جیسی ہوں گی ویسے اﷲ کے نبی کے اعمال ہوں گے اور جیسے اﷲ کے نبی کے اعمال ہوں گے تو اتنا ہی وہ آدمی اﷲ کو پسند ہوگا۔ اس سے میرے دوستو! ایک بات معلوم ہوگئی کہ دنیا میں سب سے اچھے عمل کرنے والے اﷲ کے نبی ہیں۔ اﷲ کے نبی کے واسطے سے اﷲ کے نبی کے صحابہ جنہوں نے حضورﷺکو دیکھا، حضورﷺکا ہر اسوہ اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کی اور حضور ﷺ کا ان سے سچا تعلق تھا ۔ اﷲ کے نبی کی صحبت کی برکت سے اور اﷲ کے نبی کا اسوہ اپنے اندر لانے کی وجہ سے صحابہ کے اعمال امت میں سب سے اچھے ہیں۔ اﷲ جل شانہ کو ان کی زندگیاں پسند ہیں۔ ہم میں سے کوئی کتنا ہی دین دار کیوں نہ ہو کتنا ہی نمازی کیوں نہ ہو ،کتنا ہی ذکر کرنے والا کیوں نہ ہو ،کتنا ہی دین کی دعوت دینے والا کیوں نہ ہو ،کتنا ہی وہ ذکر و اذکار کرنے والا کیوں نہ ہو ،کتنا ہی قرآن کی تلاوت کرنے والا کیوں نہ ہو۔ لیکن میرے دوستو! وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اﷲ کو ہمارے اعمال کما حقہ پسند ہیں لیکن اﷲ کے نبیﷺ اور اﷲ کے نبی کے صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین وہ شخصیات ہیں وہ لوگ ہیں کہ قرآن پاک میں جگہ جگہ اﷲ نے فرمایا کہ ’’تمہارے لیے بہترین نمونہ یا تو اﷲ کے نبی ہیں اور پھر اﷲ کے نبی کا اُسوہ اپنانے والے صحابہ ہیں ‘‘اگر ان صحابہرضوان اللہ اجمعینجیسا ایمان ہوگا ان جیسے اعمال ہوں گے تو اﷲJ تمہیں ہدایت دیں گے ورنہ اﷲ تمہیں ہدایت کبھی نہیں دیں گے۔
زمین و آسمان آپ ﷺکے صدقے بنے:
میرے دوستو! یہ ساری باتیں اﷲ نے اپنے قرآن میں بتلائیں ہیں میں اپنے پاس سے نہیں کہہ رہا۔ میں نے بتلایا کہ اﷲ نے خود فرمایا: لقدکان لکم فی رسول اﷲاسوۃ حسنۃ (پارہ ۲۱ آیت ۲۱ سورۃ احزاب)
اللہ تعالیٰ کتنی تاکیدیں لے کر آئیں ہیں۔ عربی زبان میں ’’لام‘‘ تاکید کے لیے آتا ہے اور ’’قد‘‘ تاکید کے لیے آتا ہے۔ ’’لقد‘‘ لام لے کر آئے ورنہ ’’قد‘‘ خود تاکید کے لیے کافی تھا۔ لیکن ’قد‘ کے اوپر ’’لام‘‘ تاکید کا داخل کیا ہے اور تاکید کو داخل کرکے تاکید پر تاکید لائیں ہیں اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ عربی زبان میں مبتدا پہلے آیا کرتا ہے اور خبر بعد میں آیا کرتی ہے۔ اگر اس کے خلاف ہو تو مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہاں حصر مقصود ہے۔ تاکید مقصود ہے اور یہ بتلانا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تو اﷲ جل شانہ یہاں تین تاکیدیں لائے ہیں لام تاکید، قد تاکید اوراس کے بعد لقدکان لکم فی رسول اﷲ یہ خبر ہے اس کو مقدم کیا ہے اُسوۃ حسنہ یہ مبتدا ہے اس کو موخر کیا ہے اور یہ بتلایا ہے کہ اﷲ کے رسولﷺکے علاوہ تمہیں کوئی اچھا نمونہ ملے گا ہی نہیں۔ اگر نمونہ اچھا چاہیے تمہیں تو صرف اﷲ کے رسول میں ملے گا اس کے علاوہ کہیں نہیں ملے گا۔ اب لازمی بات ہے کہ اﷲ کے رسول اللہ ﷺجب بہترین نمونہ ہیں سب سے اچھے اعمال اﷲ کے نبی ﷺ کے ہیں تو یہ کہنے میں کوئی ’’عار‘‘ نہیں ہے یہ کہنا کوئی غلط نہیں ہے کہ زمین و آسمان اﷲ کے نبی ﷺکے صدقہ بنے ہیں۔ اﷲ کے نبیﷺکا اُسوۂ حسنہ نہ ہوتا تو میرے دوستو! یہ زمین و آسمان بھی نہ بنتے۔
چلتا پھرتا قرآن:
ایک اہم بات یہ ہے کہ اﷲ  صرف کاغذات اور صرف کتاب پر کفایت کریں یہ اﷲ نے کبھی نہیں کہا۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ جی! ہمیں تو بس کتاب کافی ہے ہمیں کوئی اور نہیں چاہیے۔ میرے دوستو! اﷲ کی کوئی کتاب نبی کے عمل اور اُسوہ کے بغیر سمجھی نہیں جاسکتی،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے سوال کیا گیا کہ’’ اُم المومنین! ہمیں یہ بتلائیے کہ اﷲ کے نبی ﷺکے اخلاق کیا تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے جواب دیا کہ’’ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا ؟ کہا:’’ہم نے قرآن پڑھا ہے‘‘فرمایا: ’’ جو قرآن ہے وہی اﷲ کے نبیw کا اُسوہ ہے، وہی اﷲ کے نبی wکے اخلاق ہیں، ایک چلتا پھرتا قرآن دیکھنا ہو تو اﷲ کے نبی ﷺ کو دیکھو! ‘‘(مسلم : ۲۵۲ باب صلوٰۃ اللیل وعدد رکعات قدیمی کتب خانہ)
یعنی کاغذی قرآن تو وہی ہے جو لکھا ہوا ہے لیکن چلتا پھرتا قرآن نبی ہیں ۔
حق کے دو معیار:
اﷲ تعالیٰ کو اپنے نبیﷺ کا اُسوہ پسند ہے پھر اﷲ کے نبی wکے واسطے سے صحابہv وہ شخصیات ہیں جن کا ہر اُسوہ، اﷲ کے نبی wکے عین مطابق ہے۔ مجھ سے ایک آدمی نے یہاں سوال کیا تھا کہ’’ جی! ربیع الاوّل میں لوگ بہت کچھ کرتے ہیں ،نئے نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔ نئی نئی باتیں آرہی ہیں، نئے کپڑے بن رہے ہیں، عید آگئی ہے، نیا کچھ ہورہا ہے، سب کچھ نیا ہورہا ہے یعنی وہی عید کی طرح سب کچھ کیا جارہا ہے۔ اب ان کی بات اور ان کے دلائل سنو تو وہ سچ لگتا ہے ادھر کچھ سنو تو وہ سچ لگتا ہے ہم کس کی طرف جائیں؟ وہ بھی دلیلیں دیتے ہیں ادھر بھی دلیلیں ہیں ہم مانے تو کس کی مانیں؟ ‘‘
میں نے عرض کردیا کہ دو معیار ہیں جانچنے کے لیے ۔ قرآن خود کچھ نہیں جب تک اﷲ کے نبیw کا اُسو ہ ساتھ نہ ہو۔ قرآن نے خود کہا ہے:’’ یضل بہ کثیرا ویھدی بہ کثیراً‘‘ (البقرۃ:۲۶)یہ قرآن بہتوں کو گمراہ کردیتا ہے اور بہتوں کو ہدایت دے دیتا ہے۔‘‘ تو وہی ہدایت ہوگی جو اﷲ کے نبیﷺ کا اُسوہ ہوگا۔ اگر اﷲ کے نبیﷺ کا اُسوہ ساتھ نہ ہوگا تو یہ قرآن بھی گمراہ کردے گا۔ اس لیے قرآن کی وہی تفسیر مطلوب ہوگی جو اﷲ کے نبیﷺ نے کرکے دکھلائی ہے۔ اگر اﷲ کے نبی wکی زندگی کے مطابق وہ تفسیر نہیں ہے تو قرآن کی وہ تفسیر گمراہی تو ہوسکتی ہے قرآن کی وہ تفسیر زندقہ تو ہوسکتی ہے قرآن کی وہ تفسیر غلط تو ہوسکتی ہے لیکن قرآن کی وہ تفسیر اﷲ کی تفسیر نہیں ہے۔
ہاں !نبی پاک ﷺکی زندگی اس کے مطابق ہے صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی زندگیاں اگر اس کے مطابق ہیں تو پھر یقین کر لیجیے کہ یہی قرآن کی تفسیر اور یہی حدیث کی تفسیر اﷲ کو مطلوب ہے ۔ورنہ دلائل دینے پر تو دنیا کا ہر گمراہ دلائل دیتا ہے اگر عیسایوں کے پاس چلے جائیں تو ان کے پاس اتنے دلائل ہیں کہ آپ ان کا جواب نہ دے سکیں۔ آپ یہودیوں کے پاس چلے جائیں تو ان کے پاس اتنے دلائل ہیں کہ آپ کے پاس ان کا جواب نہ ہوگا۔ مرزائیوں کے پاس اتنے دلائل ہیں کہ عام آدمی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ لیکن میرے دوستو! ان کے دلائل کسی کام کے نہیں کیونکہ ان کے دلائل اﷲ کے نبیﷺ کی زندگی سے میل نہیں کھا رہے۔ اسی طرح ہم جو آج کچھ نئے نئے کام کر رہے ہیں تو میرے دوستو! ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اﷲ کے نبیﷺ کی زندگی میں یہ چیزیں تھیں یا نہیں؟ اﷲ کے نبی ﷺنے اپنی زندگی میں یہ کام کیا تھا یا نہیں کیا تھا؟ صحابہ رضوان اللہ اجمعین جو اﷲ کے نبی کے سچے پیروکار تھے اور سچا اُسوہ اپنے اندر لیے ہوئے تھے انہوں نے یہ کام کیے تھے یا نہیں؟ انہوں نے اگر نہیں کیے تو قرآن و حدیث کے جتنے دلائل دے دیے جائیں وہ غلط ہیں ،صحابہرضوان اللہ اجمعین نے جو مطلب بتایا وہ صحیح ہے۔ اس لیے صحابہرضوان اللہ اجمعین  کے مطلب کا اعتبار ہے اﷲ کے نبی ﷺ کے مطلب کا اعتبار ہے ہم اپنے طورپر کتنے دلائل دیتے رہیں،ان دلائل کا کوئی اعتبار نہیں۔
دہرا گناہ:
اﷲ کے نبی ﷺ نے ہمیں جو کچھ دیا ہے ہم اس پر تو آتے نہیں،اﷲ کے نبیﷺ کا اُسوہ اپنانے کو تو کوئی تیار نہیں۔ صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی زندگیاں جو اﷲ کے نبی ﷺکے مطابق تھیں اس پر تو مسلمان آنے کو تیار نہیں اور اپنی طرف سے چیزیں ایجاد کی جارہی ہیں اور وہ بھی اﷲ کے نبی ﷺ کی محبت کے عنوان سے! اور پھر انھیں اپنانے کوہی حقیقی اسلام گردانا جارہا ہے! مجھ سے ایک غلط کام ہوجائے لیکن اس میں دین کا لیبل نہ لگا ہو تو اس پر گناہ ہوگا صرف ایک گناہ کاکہ اس نے گناہ کیا ہے۔ لیکن میں ایسا کام کروں جو دین کے خلاف ہو اور اس کو کیا اﷲ کے نبیw کی محبت کا لیبل لگا کر تو دہرا گناہ ہوگا۔ ایک تو گناہ کرنے کا گناہ ہے ،دوسرے معاذ اﷲ!اﷲ کے نبی ﷺکے نام کو غلط استعمال کرنے کا۔
صحابہرضوان اللہ اجمعین  ہمارے لیے بہترین معیار حق ہیں۔ صحابہرضوان اللہ اجمعین  کی زندگیاں دیکھ لیجیے! صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی زندگیوں میں یہ باتیں آپ کو نظر آئیں جو ہم کر رہے ہیں تو سر آنکھوں پر لیکن اگر صحابہ vکی زندگیوں میں یہ باتیں نہ ہوں جو آج ہم کر رہے ہیں اور ہم اﷲ کے نبی ﷺکی محبت کا لیبل لگا کر رہے ہیں تو شریعت کے ضابطوں کے سراسرخلاف ہے۔ آپ خود فیصلہ کر لیجیے کہ اس پر اﷲ کے یہاں ہماری پکڑ ہوگی یا اجر ملے گا؟
ایک اعتراض اور اس کا جواب:
اعتراض کیا جاتا ہے کہ جی! اﷲ کے نبیﷺ کے زمانے میں اور صحابہرضوان اللہ اجمعین کے زمانے میں تو پنکھا، ٹیوب لائٹ اور یہ سب نئی ایجادات بھی نہ تھیں تو پھر ان کو بھی غلط کہہ دیں! اس اعتراض پر لوگ بہت واہ واہ کرتے ہیں کہ واقعی بات تو درست ہے۔ لیکن درحقیقت یہ سب دین سے اور بدعت کی تعریف سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے۔ ان چیزوں کو ان نئی ایجادات کو ’’دین‘‘ سمجھتا کون ہے؟ دین میں نئی چیز پیدا کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ دین کی بات بنا کر اور ثواب کا کام بتا کر کوئی نئی چیز کی جائے۔ یہی بدعت کی تعریف ہے۔ پنکھا اور جدید ٹیکنالوجی کو دین اور ثواب کون سمجھتا ہے؟ اﷲ ہم سب پر رحم فرمائیں۔ حضور کی ایک ایک ادا کو اپنے اندر لانے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت نانوتوی کا عشق رسولﷺ:
ہمارے حضرت قاسم نانوتوی جو دارالعلوم دیوبند کے بانی ہیں۔ لوگ پتا نہیں ان کو کیا کچھ کہتے ہیں کہ معاذ اﷲ! یہ نبی ﷺکے گستاخ تھے ،نبی کو نہیں مانتے تھے معاذاﷲ! نبی کے ختم نبوت کے قائل نہیں تھے، پتا نہیں کیا کچھ کہتے ہیں ۔لیکن ان لوگوں کی زندگیاں عجیب تھیں۔ ایک انگریز حضرت کے خلاف ہوگیا حضرت کو پکڑنے کے پیچھے پڑ گیا کہ باغی ہیں۔ لوگوں نے کہا حضرت سے کہ ’’آپ کے پیچھے پولیس لگی ہوئی ہے، انگریز آپ کی تلاش میں ہے اس لیے آپ چھپ جائیں! جب حالات ٹھیک ہوں تب آپ باہر آجائیے گا۔ ‘‘حضرت نے کہا: ’’بہت اچھا۔ ‘‘ایک راؤ صاحب کا مکان تھا حضرت وہاں جا چھپے۔ اب انگریز کو کسی نے مخبری کردی کہ فلاں راؤ صاحب جو حکومت کے بھی چہیتے ہیں ان کے مکان میں چھپے ہیں۔ انگریز ادھر پہنچ گئے ۔راؤ صاحب سے کہا کہ ’’آپ کا اصطبل دیکھنا ہے۔‘‘ یہ تو کہا نہیں کہ آپ کے گھر میں کوئی چھپا ہے آپ گھر دکھلائیں اندر سے ۔ اب انکار بھی نہیں کر سکتے ہیں ان کے ساتھ پوری پولیس ہے وہ بڑا انگریز افسر ہے۔ انکار کریں گے تو فوراً پکڑے جائیں گے۔ کہا کہ ’’ہاں ہاں آئیں! اندر ذرا پردہ کر آؤں‘‘ اندر گئے تو حضرت مصلے پر نماز پڑھ رہے تھے، حضرت سے کہا کہ’’ حضرت !میری عزت خطرے میں ہے، آپ تو گرفتار ہوں گے، میرا تو بہت بڑا نقصان ہوگا۔ اﷲ سے دُعا کریں کہ اﷲ ان سے نجات دیں۔‘‘ وہ باہر آئے انگریز کو اندر لے گئے۔ اندر جب پہنچتے ہیں تمام سوانح نگاروں نے یہ بات لکھی ہے کہ مصلیٰ موجود ہے لوٹا موجود ہے۔ سب کچھ موجود ہے لیکن حضرت مصلے پر نہیں ہیں کہنے لگا کہ ’’یہ مصلیٰ کیسے بچھا ہے ؟‘‘کہا کہ ’’بات یہ ہے کہ عبادت کے لیے تنہائی چاہیے، گھر میں اصطبل خانہ ہے ،گھر میں شور شرابہ ہوتا ہے ،بچے ہوتے ہیں اس لیے یہاں عبادت کر لیتا ہوں ‘‘تو انگریز نے دیکھا کوئی چیز نظر نہ آئی واپس چلا گیا۔ یہ راؤ صاحب کہتے ہیں ’’میں انگریز کو الوداع کرکے واپس اندر گیا ہوں تو دیکھا حضرت مصلے پر کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں ‘‘اﷲ نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ ان کو نظر ہی نہ آئے۔ تین دن گزرنے کے بعد حضرت باہر تشریف لے آئے لوگوں نے کہا ’’حضرت ابھی تو بہت خطرہ ہے آپ ابھی چھپے رہیں۔‘‘ فرمایا: ’’میں نے وہاں اﷲ کے نبی wکی سیرت پر غور کیا، اﷲ کے نبی ﷺکی زندگی پر غور کیا اﷲ کے نبی ﷺ کی زندگی میں مجھے تین دن غار ثور میں چھپنا معلوم ہوا ہے اور احادیث سے پتا چلتا ہے کہ اﷲ کے نبیﷺغار ثور کے اندر تین دن چھپے تھے تو میں نے اﷲ کے نبیﷺکی سنت کو زندہ کردیا ۔ اب انگریز پکڑتا ہے پکڑ لے میں اﷲ کے نبی ﷺکی سنت کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
میرے دوستو! جن کی زندگیاں سنت کے مطابق ہوتی ہیں وہ اس طرح سنتوں پر عمل کیا کرتے ہیں۔ ہماری طرح نہیں کہ کہنے کو کچھ اور عمل کچھ۔ ان کو جان کی پرواہ نہیں ہوا کرتی۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ اﷲ کے نبی کی سنت کا طریقہ یہ ہے حضور کا اسوہ یہ ہے تو اسی اُسوہ کو اپنائیں گے۔ اپنی زندگیوں کی کچھ پرواہ نہیں کریں گے۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ یہ حضور کو نہیں مانتے۔ اﷲ ہم سب پر رحم فرمائے۔ ان کی ایک ایک ادا سنت کے مطابق تھی۔ جنہیں محبت ہوتی ہے جن کو سچا تعلق ہوتا ہے وہ اس طرح اﷲکے نبی wکے ساتھ اپنا سچا تعلق دکھلاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ ہے اصل اﷲ کے نبیw کا سچا تعلق۔ ہمیں بھی اﷲ ایسا تعلق نصیب فرما دے کہ حضورﷺکی ایک ایک ادا ہماری زندگی میں آجائے ۔ایسا ہو جائے تو دین و دنیا کے سارے کام بن جائیں گے۔ ورنہ آج ہم جس طرف جارہے ہیں پتا نہیں یہ سلسلہ کہاں جاکے رکے گا؟ میرے دوستو! پھر دین کو بدلنا کس کو کہتے ہیں۔ پھر دین کیسے نہیں بدلتا۔ دین اسی طرح بدلا کرتا ہے

 

اپنا تبصرہ بھیجیں