کاروبار اور ملازمت پیشہ افراد کے لیے راہ نما تحریر
نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
قال رسول اللّٰہ ﷺ التاجرالصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء (ترمذی: ۱/۲۲۹)
اسلام ایک محدود دین ہے ؟
بعض مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ اسلام ایک محدوددین ہے جو صرف نماز روزہ اور عبادات سے متعلق رہنمائی کرتاہے، جبکہ تجارت ،کاروبار، ملازمت اور معاملات سے متعلق اسلام کوئی رہنمائی نہیں کرتا یا کرتا بھی ہے تو اس جدید دور کے لیے ناکافی ہے۔
دوسری طرف بعض مسلمانوں کا یہ نظریہ تو نہیں البتہ ان کا عمل ان کے نظریے کی نفی کرتاہے ۔ وہ معاملات سے متعلق احکامات سیکھنے اور عمل کرنے میں اتنی فکر مندی اور چستی کا مظاہرہ نہیں کرتے جس قدر عبادات سے متعلق کرتے ہیں ۔ یاد رکھیے!تین چوتھائی دین معاملات ہے۔ جب ہم ایک چوتھائی دین جو کہ عبادات سے متعلق ہے اس کے لیے فکر مندرہتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو تین چوتھائی دین سے اس قدر کیوں غافل ہیں؟یہ دراصل کچھ دشمنوں کی سازش ہے اور کچھ مسلمانوں کی اپنی کوتاہی!
سیکولر نظریہ:
جب سے مغربی استعمار کا دنیا پر غلبہ ہوا ،اس وقت سے دین کوایک منظم سازش کے تحت صرف عبادات گاہوں ، تعلیم گاہوں اور ذاتی گھروں تک محدود کردیاگیاہے، سیاسی اور معاشی سطح پر دین کی گرفت نہ صرف یہ کہ ڈھیلی پڑگئی ہے بلکہ رفتہ رفتہ ختم ہوچکی ہے۔ آج ایک سیکولر نظریے کا بڑاشورہے کہ اجتماعی کام مثلاً: معیشت اور سیاست وغیرہ مذہب سے آزادہیں اور کوئی مذہب بشمول اسلام اس سلسلے میں کوئی پابندی عائد نہیں کرتا جبکہ انفرادی اور ذاتی کام مثلاً عبادات وغیرہ کے سلسلے میں انسان جس مذہب میں سکون پائے اختیار کرلے۔ گویا عبادات کے شعبے میں مذہبی احکامات پر عمل ، اس کے حق ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ راحت وسکون کے حصول کے لیے ہے۔ جب مغربی استعمار نے اسلامی ملکوں پر اپنا تسلط جمایاتو اس نے سیکولرازم کا یہ نظریہ خوب پھیلایا اور بزور شمشیر پھیلایا۔ انہوں نے سیاسی اور معاشی اداروں سے دین کا رابطہ توڑا۔ وہ اس رابطے کو توڑنے کے لیے ایسا تعلیمی نظام بھی رائج کرنے میں کامیاب ہوگئے جس نے دین کا رشتہ سیاست ، معیشت ، اقتصادیات اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے کاٹ دیا اور مذہب کو محدودو کردیا۔
ایک طرف دشمنان اسلام کی یہ سازش تھی، دوسری طرف اس سازش کے کامیاب ہونے میں کچھ حصہ ہمارے اپنے طرز عمل کا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں جتنی توجہ عبادات کودی اتنی توجہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرف نہیں کی،جتنا اہتمام عقائد عبادات کی درستگی کاہے اتنا اہتمام معاملات ،معاشرت اور اخلاق کی درستگی کا نہیں ہے۔
اسلام معاملات کا بھی دین ہے:
قرآن وحدیث میں کثرت کے ساتھ تجارت، معیشت، سیاست، اور معاملات سے متعلق رہنما اصول بیان کے گئے ہیں اور ان کی درستگی کی تاکید کی گئی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دین اسلام صرف عبادات کا دین نہیں بلکہ معاملات کا بھی دین ہے ذیل میں اس سلسلے کی چند احادیث ملاحظہ فرمائیے!
۱) نبیﷺکا ارشاد ہے :’’جو تاجر تجار ت کے اندر سچائی اور امانت داری اختیار کرے تو وہ قیامت کے دن انبیاء ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘ (ترمذی: ۱/۲۲۹)
۲) ایک دوسری حدیث میں آپw کا فرمان ہے:’’تجار قیامت کے دن فجار بنا کر اٹھائے جائیں گے سوائے اس شخص کے جو تقویٰ اختیار کرے اور نیکی اختیار کرے اور سچائی اختیار کرے۔‘‘ (ابن ماجہ، ترمذی :۱/۱۰۰)
ان دونوں حدیثوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے کی جانے والی تجارت باعث سعادت جبکہ شرعی حدود کو پامال کر کے کی جانے والی تجارت باعث شقاوت ہے۔
ہماری ذمہ داری:
ایسے حالات میں ہماری کیاذمہ داری ہے ؟یہ ایک اہم سوال ہے۔
نبی ﷺکا ارشاد ہے :’’ایسا وقت آئے گا کہ انسان اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ جو چیز اس نے حاصل کی ہے وہ حلال ہے یا حرام ۔‘‘ (مسند احمد ص ۴۳۰)
موجود ہ زمانے میں بالکل یہی حالت ہے کہ لوگوں کو حلال وحرام کی کوئی پرواہ نہیں۔ پس صرف پیسے سے مطلب ہے خواہ کہیں سے بھی حاصل ہو۔حالانکہ مسلمان اور کافر میں رزق حاصل کرنے کے اعتبار سے یہی فرق ہے کہ کافر محض پیسہ کمانے کی مشین ہوتاہے وہ اس کے حصول کے لیے حرام وحلال میں تمیز نہیں کرتا جبکہ مسلمان کو ایک ایک پیسے کے بارے میں فکر لاحق ہوتی ہے کہ یہ پیسہ حلال طریقے سے آرہاہے یا حرام طریقے سے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عبادات سے متعلق احکامات جاننے اور ان پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تجارت ، پیشے، ملازمت وغیرہ سے متعلق بھی اسلامی احکامات سے آگاہی حاصل کرکے ان پر عمل کریں۔ آپw کا فرمان ہے : ’’علم حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے ۔‘‘
(مشکوٰۃ: ص ۳۴ کتاب العلم ، قدیمی کتب خانہ)
اس حدیث کے تحت علما یہی فرماتے ہیں کہ زندگی کے جس شعبے سے مسلمان وابستہ ہو اس کی حلال وحرام صورتوں اوراس کے جائزناجائزکے بارے میں روز قیامت اس سے باز پرس ہوگی۔
ہمیں چاہیے کہ کسی بھی ذریعۂ معاش کو اختیار کرنے سے پہلے اس کی جائز وناجائز صورتیں اہل علم سے معلوم کرلیں۔ کام شروع کرنے کے بعدجو نئی نئی صورتیں پیش آتی ہیں اس کا حکم بھی علمائے کرام سے دریافت کریں! ایسا کر نا شاید ابتدامیں آپ کے لیے باعث مشقت ہو مگر یاد رکھیے!کہ اس طرح آپ کا تجارت ومعاملات کے مسائل جاننا حضور w کی حدیث کی رو سے ہزاروں رکعت نفل سے بہتر ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ اس طرح مسائل سیکھ کر عمل کرنے سے آپ کی تجارت ، ملازمت، زراعت ودیگر معاملات عین عبادت بن جائیں گے اور ان پر آپ کو اجر وثواب ملے گا جیسا نماز ، روزے وغیرہ پر ملتاہے۔
اس وقت ہمارے مسلمان تاجروں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت کی ہدایتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا کے سامنے ایک ایسا عملی نمونہ پیش کریں جو دوسروں کے لیے باعث کشش ہو۔ جو شخص ایسا کرے گا وہ اس دور کی سب سے بڑی ضرورت کو پورا کرے گا۔
چراغ سے چراغ جلتا ہے:
اسی طرح یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہر انسان اپنے اعمال کا جوابدہ ہے۔ اس لیے اس شیطانی دھوکے میں نہیں آنا چاہیے کہ جب تک سب لوگ نہ بدلیں میں بھی نہیں بدلوں گا۔ اپنے حصے کاکام کرتے ہوئے اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب ایک چراغ جلتاہے تو اس ایک سے دوسرا چراغ جلتاہے اور جلے گا، ان شاء اللہ !
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے یہ جذبہ وعزم ہمارے دلوں کے اندر پیدا فرمادے جو اس وقت کی بڑی اہم ضرورت ہے اور ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
آمین!
Load/Hide Comments