فتویٰ نمبر:389
سوال: ہمارے والد مرحوم کے نام ایک پلاٹ الاٹ تھا ان کے انتقال کے بعد بخوشی ہم سب بہن بھائی اپنے چھوٹے بھائی کے حق میں دستبردار ہوئے کہ چھوٹا بھائی محمود حسین بطور مالک کے اس گھر میں رہے گا اور ہم نے یہ بھی کہا کہ چھوٹا بھائی یہ اپنے نام بھی کروالے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔
گزارش ہے کہ میں محمود حسین اس پلاٹ میں کافی عرصہ ست مقیم ہوں اب میرے لئے شریعت کی رو سے کیا حکم ہے ؟
الجواب حامدا ومصلیا
واضح رہے کہ تقسیم میراث سے پہلے میراث میت کے تمام شرعی ورثاء کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے اور شرعی اصول یہ ہے کہ وہ اموال جو تقسیم کے بعد بھی قابل نفع رہتے ہیں وہ اگر کچھ لوگوں میں مشترک ہوں اور کوئی شریک اپنا حصہ اپنے ہی شریک کو یا کسی اور شریک کو ہدیہ کردے تو وہ ہدیہ شرعاً نافذ نہیں ہوتا بلکہ ہدیہ کرنے والوں کی ملکیت میں ہی رہتا ہے ۔
صورت مسئولہ میں سائل کی سب بہنوں نے اسے اگرچہ اپنی رضامندی سے ترکہ کا یہ مکان یہ ھدیہ کر دیاہے اور سائل نے قبول بھی کرلیا ہے لیکن چونکہ یہ معاملہ مکان کی شرعی تقسیم سے پہلے ہوا ہے جیسا کہ زبانی تنقیح سے معلوم ہوا ہے اور مکان ان اموال میں سے بھی ہے جس سے تقسیم کے بعد نفع حاصل کیا جا سکتا ہے اس لئے یہ ہدیہ شریعت کی رو سے نافذ نہیں ہوا اور مکان تا حال سائل اور اس کی بہنوں کی مشترکہ ملکیت ہے ،سائل کی بہنیں اس میں اپنے حصے کا مطالبہ کر سکتی ہیں ۔
اگر کوئی وارث فوت ہو چکا ہو تو اس کے شرعی ورثاء اس کے بننے والے حصے کے حق دار ہونگے سائل اس مکان کا مکمل مالک بننا چاہے تو اس کی تفصیلات کے لئے دوبارہ سوال بھیجے ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 692):
(لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل
البناية شرح الهداية (7 / 373):
الشركة ضربان: شركة أملاك، وشركة عقود، فشركة الأملاك العين يرثها الرجلان أو يشتريانها فلا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بإذنه
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 692):
ولو سلمه شائعا لا يملكه حتى لا ينفد تصرفه فيه فيكون مضمونا عليه، وينفذ فيه تصرف الواهب ذكره الطحاوي وقاضي خان وروي عن ابن رستم مثله، وذكر عصام أنها تفيد الملك وبه أخذ بعض المشايخ
ونقل عن المبتغى بالغين المعجمة: أنه لو باعه الموهوب له لا يصح، وفي نور العين عن الوجيز: الهبة الفاسدة مضمونة بالقبض، ولا يثبت الملك فيها إلا عند أداء العوض نص عليه محمد في المبسوط، وهو قول أبي يوسف؛ إذ الهبة تنقلب عقد معاوضة اهـ.
وذكر قبله هبة المشاع فيما يقسم لا تفيد الملك عند أبي حنيفة، وفي القهستاني لا تفيد الملك، وهو المختار كما في المضمرات، وهذا مروي عن أبي حنيفة وهو الصحيح اهـ.
فحيث علمت أنه ظاهر الرواية وأنه نص عليه محمد ورووه عن أبي حنيفة ظهر أنه الذي عليه العمل وإن صرح بأن المفتى به خلافه۔
التخريج
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6 / 56):
الشركة في الأصل نوعان: شركة الأملاك، وشركة العقود وشركة الأملاك نوعان: نوع يثبت بفعل الشريكين، ونوع يثبت بغير فعلهما.
(أما) الذي يثبت بفعلهما فنحو أن يشتريا شيئا، أو يوهب لهما، أو يوصى لهما، أو يتصدق عليهما، فيقبلا فيصير المشترى والموهوب والموصى به والمتصدق به مشتركا بينهما شركة ملك.
(وأما) الذي يثبت بغير فعلهما فالميراث بأن ورثا شيئا فيكون الموروث مشتركا بينهما شركة ملك.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5 / 94):
قال – رحمه الله – (فإن قسمه وسلمه صح) أي ولو وهب مشاعا، ثم قسمه وسلمه جاز؛ لأن تمام الهبة بالقبض وعنده لا شيوع فيه، ولو سلمه شائعا لا يملكه حتى لا ينفذ تصرفه فيه ويكون مضمونا عليه وينفذ فيه تصرف الواهب ذكره الطحاوي وقاضي خان وروي عن ابن رستم مثله وذكر عصام أنها تفيد الملك وبه أخذ بعض المشايخ.
(قوله لو وهب مشاعا، ثم قسمه وسلمه جاز) قال في الهداية قال ومن وهب شخصا مشاعا فالهبة فاسدة قال الأتقاني أي قال القدوري في مختصره وتمامه فيه فإن قسمه وسلمه جاز وأراد به الهبة فيما يقسم؛ لأن هبة المشاع فيما لا يقسم صحيحة
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2 / 356):
ولو سلمه شائعا حتى لا ينفذ تصرفه فيه ويكون مضمونا عليه وينفذ فيه تصرف الواهب كما في الدرر.
وفي المنح: هبة المشاع إذا فسدت لا تفيد الملك، وإن قبض الجملة روي ذلك عن أبي يوسف، وهو الصحيح.