مسلمانوں کو کافر اور کمزور عقیدہ،کمزور عمل اہل اسلام کی نقالی اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔اسی طرح مرد وں کو عورتوں کی اور عورتوںکو مردوں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے ۔عام طور پر عوام الناس اس مشابہت کے مفہوم کو واضح طور پر نہیں سمجھتے ،جس کی بنا پر بہت سی ان اشیاء کو بھی ممنوع سمجھ بیٹھتے ہیں جس کا مشابہت سے تعلق نہیں ہے جبکہ دوسری طرف بہت سے ان کاموں کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جن کو اختیار کرنے پر قران و حدیث میں شدید وعیدیں اور سخت وبال آیا ہے۔
اس لیے پہلے مشابہت کے مفہوم اور اس کی اقسام کو سمجھ لینا چاہیے تاکہ با آسانی ہر مسلمان کو یہ معلوم ہو جائے کہ کون سے کاموں میں مشابہت ناجا ئز اور حرام ہے اور کن چیزوں کو اختیار کرنا مشابہت میں داخل نہیں ہے ؟
مشابہت کا لغوی مفہوم:
مشابہت نام ہے مماثلت، نقل، تقلید اور پیروی کا۔ نیز مشابہت سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آپس میں ملتی جلتی ہوں لہذا جب یہ کہا جائے کہ فلاں نے فلاں کی مشابہت اختیار کی تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی نقل اور پیروی اختیار کر کے اس جیسا ہو گیا۔
قرآن کریم میں ممانعت:
اللہ رب العزت کی طرف سے اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفاراوریہود اور نصاریٰ سے دور رکھنے کی متعدد مقامات پر تلقین کی گئی۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
{ لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ } [آل عمران: 28]
ترجمہ :مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یا رومددگار نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تم ان کے (ظلم )سے بچنے کے لئے بچاو کا طریقہ اختیار کرو۔
احادیث میں ممانعت :
سنن أبي داود (4 / 44):
عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم فهو منهم»
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ: جو کوئی جس قوم سے مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی میں سے ہو گا۔
صحيح البخاري (7 / 160):
عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” خالفوا المشركين: وفروا اللحى، وأحفوا الشوارب “
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ:مشرکین کی مخالفت کر و اور ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کٹاؤ ۔
صحيح ابن حبان (5 / 561):
حدثنا أبو ثابت يعلى بن شداد بن أوسعن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “خالفوا اليهود والنصارى، فإنهم لا يصلون في خفافهم، ولا في نعالهم
حضرت شداد بن اوس رضی اللہعنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہود و نصاری کی مخالفت کرو وہ موزوں اور جوتوں کو پہن کر نماز نہیں پڑھتے ۔
صحيح مسلم (1 / 222):
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «جزوا الشوارب، وأرخوا اللحى خالفوا المجوس»
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مونچھوں کو کٹاؤں اور ڈاڑھی کو بڑھاؤ ،مجوسیوں کی مخالفت کرو۔
صحيح البخاري (7 / 159):
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ایسے مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں ۔
سنن ترمذی میں ایک روایت ہے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
” جو شخص ملتِ اسلامیہ کے علاوہ کسی اور امت کے ساتھ مشابہت اختیار کرے تو وہ ہم میں سے نہیں اِرشادفرمایا کہ: تم یہود اور نصاری کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو“۔
(سنن الترمذي، کتاب الاستیذان، رقم الحدیث: ۲۶۹۵)
اس حدیث کی شرح میں صاحب تحفة الأحوذي لکھتے ہیں کہ
مراد یہ ہے کہ تم یہود و نصاریٰ کے ساتھ ان کے کسی بھی فعل میں مشابہت اختیار نہ کرو
(تحفة الاحوذی: ۷/۵۰۴)
سنن ابی داوٴد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا․
(سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث: ۴۰۳۰)
علامہ سہارنپوری لکھتے ہیں کہ مشابہت عام ہے ، خیر کے کاموں میں ہو یا شر کے کاموں میں، انجام کار وہ ان کے ساتھ ہو گا، خیر یا شر میں۔
(بذل المجہود: ۴/ ۵۹)
مَنْ تَشَبَّہَ “ کی شرح میں ملا علی القاري لکھتے ہیں جو شخص کفار کی، فساق کی، فجار کی یاپھر نیک و صلحاء کی،لباس وغیرہ میں ہو یا کسی اور صورت میں مشابہت اختیار کرے وہ گناہ اور خیر میں ان کے ہی ساتھ ہوگا ۔
(مرقاۃ المفاتیح رقم الحدیث ۲۲۲/۸۴۳۴۷رشیدیہ)
مشابہت کی اقسام اور ان کے احکام :
(۱)فطری امور میں مشابہت :
مثلاً کھانا ،پینا ،پہننا ،صفائی رکھنا وغیرہ ۔ ان کاموں کا مشابہت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اسی طرح جن باتوں کا تعلق علوم و فنون یا خالص دنیاوی امور سے ہے جیسے صنعت و حرفت اور اسلحہ سازی وغیرہ۔ ان میں بھی مشابہت منع نہیں ہے۔
(۲) عادات میں مشابہت:
اس ہیئت پر کھانا ،پینا ،پہننا جس ہیئت و طریقہ کو کفار اور فاسق و فاجر لوگوں نے اپنایا ہوا ہے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی پہلے ہی سے کوئی خاص وضع ہو اور پھر کفار نے بھی اسی وضع کو اختیار کر لیا ہو تو یہ مشابہت اتفاقیہ ہے یہ ممنوع نہیں اس کے برعکس اگرمسلمانوں کی پہلے سے کوئی خاص وضع ہو اور وہ اس کو چھوڑ کر کفار و فساق کی وضع اختیار کر لیں تو یہ نا جائز ہو گا لہذا مسلمانوں کو عادات کے اندر ان کفار کے وضع کردہ طریقوں پر عمل پیرا ہونے سے بچنا لازم ہے ۔ البتہ اگر اس طرح کی مشابہت اسلامی معاشرے میں اس قدر رائج ہوجائے کہ مشابہت کا پہلو بالکل ذہنوں سے نکل جائے تو اب وہ طریقہ غیرشرعی ہونے سے نکل کر جواز کی حدود میں داخل ہوجائے گا۔ جیسے کرسی ٹیبل پر کھانا، کالر والا لباس پہننا ٹراوزر پہننا۔ سالگرہ منانے کو بھی اس میں شامل کرسکتے ہیں جبکہ اسے ثواب اور عبادت نہ سمجھا جائے!
(۳)مذہبی شعار میں مشابہت:
ان امور میں مشابہت جو کفار کا مذھبی شعار ،دینی رسوم یا قومی رواج ہو ان میں مشابہت کرنا بالکل حرام ہے بلکہ بعض صورتوں میں مشابہت کو فقہاء کرام نے کفر تک کہا ہے جیسے بتوں کے سامنے سجدہ کرنا بغیرکسی شرعی مجبوری کے زنار یا مجوسی ٹوپی پہننا وغیرہ کیونکہ ان چیزوں کا تعلق ان کے مذھبی شعار سے ہے اور ان چیزوں میں مشابہت در حقیقت ان کے مذھب کو اختیار کرنے اور اس پر رضامندی کے مترادف ہے اس لئے اس صورت میں مشابہت سےبچنا بے حد ضروری ہے ۔
اس صورت میں کفار کے وہ تہوار اور ان کی وہ تقریبات بھی داخل ہوں گی جو ان کے مذھبی شعار ہیں جیسے کرسمس ،ہولی وغیرہ کہ ایک مسلمان کے لیے ان کا منانا اور ان کی تقریبات میں بھی شرکت کرنا با لکل حرام ہو گا ۔
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ علیہ کی تحقیق:
تشبہ بالکفار کی ممانعت کے بارے میں نہایت ہی نتیجہ خیز گفتگو صاحبِ انوار الباری نے حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری کی نقل کی ہے۔
فرمایا: “شعار(مشابہت) کی بحث صرف ان امورمیں چلے گی جن کے بارے میں صاحبِ شرع سے کوئی ممانعت کا حکم موجود نہ ہو ، ورنہ ہر ممنوع ِ شرعی سے احتراز کرنا ضروری ہو گا خواہ وہ کسی قوم کا شعار ہو یا نہ ہو اس کے بعد جن چیزوں کی ممانعت موجود نہ ہو اگر وہ دوسروں کا شعار ہوں تو ان سے بھی مسلمانوں کو اجتناب کرنا ضروری ہو گا اگر وہ نہ رُکیں اور ان کا تعامل بھی دوسروں کی طرح عام ہو جائے یہاں تک کہ اس زمانے کے مسلمان صلحاء بھی ان کو اختیار کر لیں تو پھر ممانعت کی سختی باقی نہ رہے گی جس طرح کوٹ کا استعمال ابتدا میں صرف انگریزوں کے لباس کی نقل تھی پھر وہ مسلمانوں میں رائج ہوا یہاں تک کہ پنجاب میں صلحاء اور علماء تک نے اختیار کر لیا تو جو قباحت شروع میں اختیار کرنے والوں کے لیے تھی وہ آخر میں باقی نہ رہی اور حکم بدل گیا لیکن جو امور کفار و مشرکین میں بطورِ مذہبی شعار کے رائج ہیں یا جن کی ممانعت کی صاحبِ شرع صلی الله علیہ وسلم نے صراحت کر دی ہے اُن میں جواز یا نرمی کا حکم کبھی بھی نہیں دیا جا سکتا۔ (انوار الباری: 5/ 101، فیض الباری: 2/15)
کفار و فساق سے مشابہت اختیار کرنے سے منع کرنے کی حکمت:
اس کی بنیادی حکمت یہ ہے کہ ایک مسلمان کو اپنی زندگی کے ہر شعبہ اور اپنی تمام عادات و اطوار میں اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی سنتوں پر عمل پیرا ہونے کا حکم ہے تا کہ اس کا یہ اقدام دنیا و آخرت میں اس کے لیےراحت و آسانی اور کامیابی کا ذریعہ ہو جبکہ اگر کوئی مسلمان کسی فاسق یا کافر کی مشابہت اختیار کرے گا تو لا محالہ رفتہ رفتہ اس کا ان لوگوں کی طرف قلبی میلان ہونے لگے گا کیونکہ مشابہت نام ہی کسی کی عادات میں نقل ہے اور اتا رنے کا اس قلبی میلان اور پسندیدگی کا لازمی نتیجہ یہ نکلےگا کہ سنت مطہرہ کی اہمیت اس کی نظر میں کم ہو جائے گی یہاں تک کہ اس مشابہت کی وجہ سے اس کے دل سے اللہ کے رسول ﷺ کے سنتوں کی عظمت اور محبت نکل جائے گی جو کہ در حقیقت اس کی دنیا و آخرت میں ناکامی کا سبب بنے گی ۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری اقوام کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے مسلمانوں کا امتیازی تشخص اور علیحدہ شان ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور مسلمانوں کی طرف سے ایک قسم کا احساس کمتری کا عندیہ ملتا ہے جو ایک مسلمان کے ایمان ،عقیدے کے لئے نہایت تباہ کن ہے اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے ۔
کفار کے مذھبی تہواروں اور ان کی مذھبی علامات کو اختیار کرنے میں اس بات کا بھی ڈر رہتا ہے کہ آہستہ آہستہ لوگ اسے دین نہ سمجھ بیٹھیں اور اس طرح دین میں تحریف و تبدیلی کا دوازہ نہ کھل جائے ان تمام وجوہات کی بنا پر قران و حدیث میں مسلمانوں کو مشابہت سے منع کیا گیا ہے ۔