حَتّىٰٓ اِذَآ اَتَوْا عَلٰي وَادِ النَّمْلِ ۙ قَالَتْ نَمْــلَةٌ يّـٰٓاَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ ۚ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمٰنُ وَجُنُوْدُهٗ ۙ وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 18
یہاں تک کہ ایک دن جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا : چیونٹیو ! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں پیس ڈالے، اور انہیں پتہ بھی نہ چلے۔
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ 19
اس کی بات پر سلیمان مسکرا کر ہنسے، اور کہنے لگے : میرے پر ورگار ! مجھے اس بات کا پابند بنا دیجیے کہ میں ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو آپ نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائی ہیں، اور وہ نیک عمل کروں جو آپ کو پسند ہو، اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل فرمالیجیے۔
ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام لوگوں کے ساتھ بارش کی دعا کرنے کے لیے شہر سے باہر نکلے کہ راستے میں آپ نے ایک چیونٹی کو چت لیٹے دیکھا کہ اپنے پاؤں کو آسمان کی طرف اٹھا کر دعا مانگ رہی تھی:
’’اے پروردگار ہم کمزور چیونٹیاں تیسری حقیر مخلوق ہیں اور تیرے رزق سے مستغنی نہیں ہیں۔ اپنے بندوں کے گناہوں کی وجہ سے ہمیں بارش سے محروم نہ فرما۔ یا ہمیں سیراب فرما یا پھر ہلاک کردے۔‘‘
حضرت سلیمان نے جب چیونٹی کی آواز سنی تو لوگوں سے فرمایا: واپس لوٹو کہ خداوند عالم نے اس چیونٹی کی دعا قبول کر لی ہے لہٰذا تم اس کی وجہ سے سیراب ہوگئے۔
چیونٹی اگرچہ جسمانی لحاظ سے انتہائی حقیر مخلوق ہے لیکن خالق فطرت کی تخلیق کا عظیم شاہکار ہے۔ چیونٹی کے باہم جوڑے نہیں ہوتے۔ ان میں افزائش کا کوئی طریقہ بھی نہیں ہوتا بلکہ چیونٹی کے جسم سے ایک معمولی سی چیز نکلتی ہے جو بڑھتے بڑھتے انڈے کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس سے چونٹی کی نسل بڑھتی ہے۔
چیونٹی کی ایک قسم کو ’’نمل الاسد‘‘ کہتے ہیں۔ اس قسم کی چیونٹی کا سر شیر کے مشابہ اور پچھلا حصہ چیونٹی کے مشابہ ہوتا ہے اس کے جسم میں چار جبڑے، انتڑیاں اور دم بھی ہوتتی ہے۔ دم میں ایک چھوٹا سا ڈنگ ہوتا ہے اور اس کے پاس زہر کی تھیلی ہوتی ہے اور پہلوؤں میں دونوں طرف سانس لینے کے لیے دو سوراخ ہوتے ہیں۔
چیونٹی کی سونگھنے کی قوت بہت تیز ہوتی ہے چیونٹی کی ہلاکت کے اسباب میں سے (ایک سبب) اس کے پروں کا نکل آنا ہے۔ جب چیونٹی اس حالت میں پہنچ جاتی ہے تو پرندوں کی زندگی میں خوشحالی آجاتی ہے کیونکہ وہ اڑتی ہوئی چیونٹیوں کا شکار کر لیتے ہیں۔
اگر کوئی چیونٹی زخمی ہوجائے تو فوراً دوسری چیونٹی کسی کیمیائی عمل سے اپنے تھوک کو دھاگے کی شکل میں بدل لیتی ہے اور اس کے زخم کو سی دیتی ہے۔ چیونٹی کی عجیب و غریب خصوصیت یہ ہے کہ یہ زمین کے اندر اپنے رہنے کی جگہ بناتی ہے جس میں گھر اور ان کے کمرے اور دہلیزیں ہوتی ہیں نیز اسے لٹکے ہوئے خانے بھی ہوتی ہیں جن میں (چیونٹیاں سردی کے موسم کے لیے دانے اور دیگر چیزیں جمع کرتی ہیں۔
چیونٹی کے چھ پاؤں ہوتے ہیں جن کے ذریعے یہ زمین کھود کر اپنا گھر (یعنی بل) تیار کرتی ہے پس جب چیونٹی اپنا بل بناتی ہے تو اسے ٹیڑھا کرکے بناتی ہے تاکہ بارش کا پانی وہاں تک نہ پہنچ سکے اور بسا اوقات اپنا گھر دو منزلہ (یعنی ایک گھر کے اوپر ایک گھر) بناتی ہیں دو منزلہ گھر بنانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ چیونٹی کی خوراک کا ذخیرہ نم نہ ہوجائے۔
چیونٹی اپنے بلوں میں کئی کمرے بناتی ہیں۔ آرام کرنے کے کے کمرے علیحدہ۔ ملاقات و مشورہ کے لیے علیحدہ حال ہوتے ہیں۔ اس کی آنکھ دراصل دو سو آنکھوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔
تقسیم کار کے لحاظ سے ان میں چند طبقے ہوتے ہیں، ملکہ، سپاہی اور مزدوروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ چیونٹیاں گرمی کے موسم میں سردیوں کے لیے خوراک جمع کرلیتی ہے اور اونچی جگہ پر اپنے بل بناتی ہیں تاکہ سیلاب کے اثر سے محفوظ رہے۔
اس کے چھوٹے جسم میں خواس خمسہ مکمل طور پر مجود ہوتے ہیں۔ چیونٹی رزق کے طلب میں بڑی تدبیریں کرتی ہیں پس جب وہ کسی چیز کو پا لیتی ہے تو دوسری چیونٹی کو بلا لیتی ہے تاکہ وہ سب مل کر خوراک کھائیں اور اٹھائیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو چیونٹی یہ کام سر انجام دیتی ہے وہ تمام چیونٹیوں کی سردار ہوتی ہے اس کی سرادر کی یہ خصوصیت ہے یہ موسم سرما کی خوراک موسم گرما میں جمع کرلیتی ہے۔
رزق جمع کرنے میں یہ چیونٹی عجیب عجیب تدبیریں کرتی ہیں جب یہ چیونٹی کوئی ایسی چیز جمع کرتی ہے جس کے متعلق اسے خطرہ ہو کہ وہ چیز اگ آئے گی تو چیونٹی اس کو دو ٹکڑے کردیتی ہے لیکن دھنیا وغیرہ کے چار ٹکڑے کردیتی ہے کیونکہ چیونٹی کو دھنیا کے متعلق معلوم ہے کہ اس کے دو نو حصے اگ جاتے ہیں۔ چیونٹی جب دانے میں بدبو اور سڑاند محسوس کرتی ہے تو اسے اپنے بل سے باہر نکال کر زمین کی سطح پر لاتی ہے اور دانے کو زمین میں بکھیر دیتی ہے۔ چیونٹی اکثر یہ عمل چاند کی روشنی میں سر انجام دیتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ چیونٹی کی زندگی کی بقاء کا انحصار کھانے پر نہیں ہوتا کیونکہ چیونٹی کے جسم میں ایسا پیٹ(معدہ) نہیں ہے جس میں کھانا جائے بلکہ اس کے جسم میں دو حصے ہیں اور وہ دونوں حصے الگ الگ ہیں چیونٹی جب دانہ کاٹتی ہے تو اس سے ایک قسم کی بو نکلتی ہے چیونٹی اسی بو کو سونگھ کر قوت حاصل کرتی ہے اور یہی قوت اس کے لیے کافی ہے۔
حیوانات میں کوئی حیوان ایسا نہیں ہے جو اپنے جسم پر (اپنی طاقت سے) دوگنا بوجھ اٹھا کر بار بار لے جائے لیکن چیونٹی (ایک ایسا جانور ہے) جو کئی گنا بوجھ اٹھانے پر راضی ہوجاتی ہے یہاں تک کہ کھجور کی گھٹلی بھی اٹھا لیتی ہے حالانکہ اس کھجور کی گھٹلی سے کوئی نفع حاصل نہیں ہوتا۔ چیونٹی کی حرص اسے اس بات (یعنی کھجور کی گھٹلی اٹھانے) پر مجبور کرتی ہے اگر چیونٹی زندہ رہ جائے تو یہ کئی سالوں کی خوراک ذخیرہ کرلے لیکن اس کی عمر زیادہ سے زیادہ ایک سال ہوتی ہے۔
غصے کی حالت میں چیونٹی کے دم کا حصہ بڑا ہوجاتا ہے۔ باقی جسد معمول کے مطابق رہتا ہے۔
چیونٹی ایک رینگنے والا جانور ہے۔ اس کی جسامت نہ ہونے کے برابر ہے مگر قدرت نے اسے ہر وصف سے بہرہ ور کر رکھا ہے۔ آنکھیں، دل، دماغ، قوت سماعت اور پیر غرض یہ کہ وہ باقاعدہ ایک کلیے کی حیثیت رکھتی ہے مگر اس کی ایک حس حیرت انگیز ہے وہ بارش سے گھنٹوں پہلے بارش ہونے کے امکان کی خبر رکھتی ہے اور بارش برسنے سے پہلے پہلے اپنے بل میں جا گھستی ہے۔
{حتی اذا اتوا علی واد النمل قالت نملة یا ایها النمل ادخلوا مسکنکم لا یحطمنکم سلیمان و جنوده و هم لا یشعرون } (18نمل )
Khuda k Ly Bahiya is Ayt ki Corection Kejeye Or IstaghFarr kejeye,,,..
Ye artical yaha se FB P Post Huha ha .. FB se me ne apni wall p Post kiya ha Phr Eik Bahii ne Correction ka kaha ha..
Shukriia
نشاندہی کا شکریہ اللہ آپ کو جزائے خیر دے