سوال:ہم لوگ گھر میں انٹرنیٹ چلاتے ہیں اور انٹرنیٹ کی تار ہم نے پڑسیوں سے لی ہے اور ہم لوگ اسے ہر مہینے ایک ہزار روپے دیتے ہیں اورپڑوسی خود اسکا بل ادا کرتے ہیں توکیا پڑوسیوں کیلئے کمپنی یاحکومت کی اجازت کےبغیر ہمیں دینادرست ہے؟ اور ہمارا لینا درست ہے؟ اسی طرح بعض لوگوں کے گھروں میں بجلی کی میٹر نہیں ہوتی وہ بھی اپنے پڑوسیوں سے بغیر اجازتِ حکومت کے بجلی لیتے ہیں توکیا یہ درست ہے؟نیزیہ بھی بتائیں کہ مدرسہ یا مسجد میں کنڈے /چوری کی بجلی استعمال کرسکتے ہیں؟
صورتِ مسئولہ میں کمپنی یا حکومت کو اگر اعتراض نہیں ہے توپھر پڑوسی سے انٹرنیٹ کی تار لینادرست ہے ورنہ نہیں اسی طرح پڑسیوں سے بغیر اجازتِ حکومت کے بجلی کی تار لینے کابھی یہی حکم ہے ۔
(۲) یہ بھی واضح رہے کہ مدرسہ یا مسجد میں بغیر میٹر یعنی بلااجازتِ حکومت یا ادارہ کےبجلی کااستعمال کرناشرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ بجلی حکومت یا ادارہ کی ملکیت ہے لہذا کسی کی ملکیت میں بغیر اجازت کے تصرف کرناجائزنہیں ہے،اوربالخصوص مسجد اورمدارس میں اسکی احتیاط زیادہ لازم ہے،اگرکوئی اس چوری کی بجلی کومسجد یامدرسہ میں استعمال کرناکارِثواب گردانتاہےتواس شخص پراندیشہ کفرہے۔
قرآن کریم میں ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (29)} [النساء : 29]
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي – (6 / 100)
حدثنا حماد بن سلمة عن على بن زيد عن أبى حرة الرقاشى عن عمه أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال :« لا يحل مال
امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه