سوال: میں جس گاؤں میں رہتا ہوں یہاں سب بریلوی رہتے ہیں تو سب لوگ “ض”کو دواد پڑھتے ہیں اور میں نے ایک عالم سے پوچھا تھا کہ “ض” کو دواد پڑھ سکتےہیں تو انہوں نے فرمایا تھا پڑھ سکتے ہیں ،تو اب پوچھنا یہ تھا کہ میں اختلاف سے بچنے کیلئے “ض”کو دواد پڑھا دیا کروں ؟کیونکہ ان کے بچے میرے پاس پڑھتے ہیں ۔
جواب: قرآن کریم کے ہر حرف کو اس کے مخرج سے ادا کرکے پڑھنا ضروری ہے قصداً ایک حرف کے بجائے دوسرا حرف پڑھنا ناجائز ہے(۱)
نیز حروف کی ادائیگی کا تعلق انکے مخارج کے ساتھ ہے کسی مسلک کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ۔
لہذا صورتِ مسؤلہ میں “ض”کو اس کا مخرج جاننے کے باوجود دواد پڑھنا ،پڑھانا ناجائز ہے
چنانچہ شرح جزری میں ہے :
وَالأَْخْذُ بِالتَّجْوِيدِ حَتْمٌ لاَزِمُ….والاظہر ان یقال تقدیرہ :واخذالقاری یتجود القرآن وھو تحسین الفاظہ باخراج الحروف من مخارجھا واعطاء حقوقھا من صفاتھا ومایترتب علی مفرداتھاو مرکباتھا فرض لازم وحتم دائم .ثم ھذا العلم لاخلاف فی انہ فرض کفایۃ والعمل بہ فرض عین فی الجملۃ علی صاحب کل قراءۃ و روایۃ(ص:۱۹)
(۱)جامع الأصول في أحاديث الرسول – (2 / 459)
أَنَّ رسولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قال : «اقرءوا القُرآنَ بِلُحُونِ العَرَبِ وأصواتِها الخ
فيض القدير – (2 / 83)
(اقرأوا القرآن بلحون العرب) أي تطريبها (وأصواتها) أي ترنماتها الحسنة التي لا يختل معها شئ من الحروف عن مخرجه.
الموسوعة الفقهية الكويتية – (10 / 182)
قَال الرَّافِعِيُّ : الْمَكْرُوهُ أَنْ يُفَرِّطَ فِي الْمَدِّ وَفِي إِشْبَاعِ الْحَرَكَاتِ ، حَتَّى يَتَوَلَّدَ مِنَ الْفَتْحَةِ أَلِفٌ وَمِنَ الضَّمَّةِ وَاوٌ . . . إِلَخْ قَال النَّوَوِيُّ : الصَّحِيحُ أَنَّ الإِْفْرَاطَ عَلَى الْوَجْهِ الْمَذْكُورِ حَرَامٌ يَفْسُقُ بِهِ الْقَارِئُ وَيَأْثَمُ بِهِ الْمُسْتَمِعُ