سوال(نمبرشمار:۱تا ۳):کیا فرماتے ہیں علماء دین شرع متین بیچ اس مسئلہ کے کہ میرے یہاں مؤرخہ 04-3-9 بمطابق ۱۷ محرم الحرام بھتیجے کی پیدائش ہوئی ،والد صاحب نے اسکا نام معیز مسعود رکھا ۔ ۱۰ یوم بعد ایک عزیز نے کہا کہ نام میں دو مرتبہ “م”نہیں آنا چاہیئے بچے پر بھاری ہوتے ہیں ۔
۱ کیا تاریخ کے حوالے سے نام رکھنا چاہئےیا کوئی اچھا سا نام رکھنا چاہئے ۔
۲ ۔کیا دو “م” آنے سے بچے کی عمر ،صحت،مرتبے پر کوئی فرق پڑتا ہے ؟
۳ علم الاعداد کے حوالے سے بچے کا نام “د”یا پھر “چ” سےشروع ہونا چاہیئے ، کیا ہمیں بچے کا نام تبدیل کردینا چاہئے ؟عرض یہ ہے کہ جواب تفصیل سے عنایت فرمائیں۔
الجواب حامداً ومصلیاً
۱ اچھا نام رکھنا شرعاً مطلوب اور مستحسن ہے نبی کریم ﷺ نے اسکی ترغیب دی ہے
چنانچہ ارشاد گرامی ہے :
مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي – (3 / 33)
(۱)” تدعون يوم القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم فأحسنوا أسمائكم “(ص:۴۰۸)
ترجمہ :قیامت کے دن تمہیں تمہارے اور تمہارے والد کے ناموں سے پکاراجائیگا لہذا اچھے نام رکھو .
(۲) تسموا أسماء الأنبياء وأحب الأسماء إلى الله عبد الله وعبد الرحمن
ترجمہ :آپ نے ارشاد فرمایا :انبیاءکے نام تکھو اور اللہ تعالیٰ کو سب سے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبد الرحمٰن ہیں .
رد المحتار – (6 / 417)
وَتَفْضِيلُ التَّسْمِيَةِ بِهِمَا (أَيْ بعَبْدِ اللَّهِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ) مَحْمُولٌ عَلَى مَنْ أَرَادَ التَّسَمِّيَ بِالْعُبُودِيَّةِ، لِأَنَّهُمْ كَانُوا يُسَمُّونَ عَبْدَ شَمْسٍ وَعَبْدَ الدَّارِ، فَلَا يُنَافِي أَنَّ اسْمَ مُحَمَّدٍ وَأَحْمَدَ أَحَبُّ إلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنْ جَمِيعِ الْأَسْمَاءِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَخْتَرْ لِنَبِيِّهِ إلَّا مَا هُوَ أَحَبُّ إلَيْهِ هَذَا هُوَ الصَّوَابُ
لہذا کسی نبی یا ولی کا نام یا اچھے معنیٰ والا نام رکھا جائے (۱)،تاریخی نام رکھنا جبکہ اس کے معنیٰ درست ہوں اگرچہ جائز ہے لیکن شرعاً مطلوب نہیں ۔
۲ دو میم کسی نام میں آجانے سے نام کے بھاری ہوجانے کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں اور ایسے نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔
۳ علم الاعداد کے مطابق شروع حروف کے اعتبار سے نام رکھنا نہ تو کوئی ضروری ہے اور نہ ہی اسکی کوئی شرعی حیثیت ہے ۔نبی کریم ﷺ برے نام کو جس سے غلط مطلب نکلتا ہو تبدیل فرمادیا کرتے تھے (۲)۔
چنانچہ روایت میں ہے :
مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي – (3 / 34)
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : إن النبي صلى الله عليه وسلم كان يغير الاسم القبيح .(مشکوٰۃ ص:۴۰۸)
البتہ علم الاعداد کے مطابق نام نہ ہونے کی بناء پر نام تبدیل کردینے کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہیں
(۱) فيض القدير (1 / 237):
ومن تأمل معاني السنة وجد معاني الأسماء مرتبطة بمسمياتها حتى كأن معانيها مأخوذة منها وكأن الأسماء مشتقة منها ألا ترى إلى خبر أسلم سالمها الله وغفار غفر الله لها وعصية عصت الله ومما يدل على تأثير الأسماء في مسمياتها خبر البخاري عن ابن المسيب عن أبيه عن جده أتيت النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: ما اسمك قلت: حزين قال: أنت سهل قلت: لا أغير اسما سماني به أبي. قال ابن المسيب: فما زالت تلك الحزونة فينا بعد والحزونة الغيظة قال ابن جني: مر بي دهر وأنا أسمى الاسم لا أدري معناه إلا من لفظه ثم أكشفه فإذا هو كذلك قال ابن تيمية: وأنا يقع لي كثيرا.
(۲)مرقاة المفاتيح ،الفصل الثالث(7 / 3010):
4781 – «وعن عبد الحميد بن جبير بن شيبة، قال: جلست إلى سعيد بن المسيب، فحدثني أن جده حزنا قدم على النبي – صلى الله عليه وسلم – فقال: ” ما اسمك؟ ” قال: اسمي حزن، قال: ” بل أنت سهل ” قال: ما أنا بمغير اسما سمانيه أبي. قال ابن المسيب: فما زالت فينا الحزونة بعد»