سوال:پورسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اگر جائز ہے تو کن صورتوں میں اور ناجائز ہے تو کن وجوہات کی بناء پر ؟ مفصلا ً جواب چاہیئے۔
الجواب حامداً ومصلیاً
مردہ کی چیر پھاڑ کرنا درجِ ذیل وجوہات میں جائز ہے :
۱) یہ کہ عورت انتقال کرجائے اور اس کے پیٹ میں زندہ بچہ ہو تو اس بچہ کو پیٹ چاک کرکے نکالا جائے (۱)۔
۲) یہ کہ کوئی شخص کسی کی رقم نگل جائے اس کے بعد اسکا انتقال ہوجائے اور ترکہ میں اس قدر مال نہ چھوڑے جس سے اس کی رقم ادا کی جاسکے تو اس صورت میں بھی اس کا جسم چیر کر صاحبِ حق کو اسکا حق دیا جائے گا۔
اور ان صورتوں میں حتی الامکان ستر کا اہتمام رکھا جائے ۔
چنانچہ درِ مختار میں ہے :
الدر المختار – (2 / 238)
( حامل ماتت وولدها حي ) يضطرب ( شق بطنها ) من الأيسر ( ويخرج ولدها )…… ولو بلع مال غيره ومات هل يشق قولان والأولى نعم. فتح
باقی حادثات میں ہلاک ہونے یا قتل ہوجانے والوں کا پوسٹ مارٹم کرنا،ان کے جسم کو چیر پھاڑ کر اندرونی حصوں کا معائنہ کرنا شرعاً جائز نہیں ۔
چند وجوہات درجِ ذیل ہیں :
(۱)انسان جس طرح زندگی میں قابلِ احترام ہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی قابلِ احترام رہتا ہے اور یہ چیڑ پھاڑ اس کے تقدس اور احترام کے منافی ہے(۲)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ} [الإسراء : 70]
(2)جس طرح کسی کی زندگی میں اس کا ستر (پوشیدہ اعضاء ) دیکھنا جائز نہیں اسی طرح اس کے مرنے کے بعد بھی یہی حکم ہے ۔
حضرت علی ؓ سے نبی ﷺ نے فرمایا :
مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي – (2 / 205)
” يا علي….لا تنظر إلى فخذ حي ولا ميت “
(۳)مسلمان میت اگر عورت ہو تو اسکے پردے اور ستر کے احکام زندگی کے احکام سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں ،چنانچہ اسکا شوہر بھی اسکے جسم کو ہاتھ نہیں لگاسکتا۔
لہذا اجنبی کے ہاتھ میں کس طرح عورت کی لاش دی جاسکتی ہے ؟
جبکہ پوسٹ مارٹم میں یہ سب خرابیاں پائی جاتی ہیں ۔
مزید یہ کہ اگر چیر پھاڑ کرنے سے موت کا سبب معلوم بھی ہوجائے تو اس بناء پر کسی کو مجرم قرار دینا درست نہیں جبتکہ شرعی طریقہ یعنی اسکے اقرار یا گواہوں کے ذریعہ اسکا مجرم ہونا ثابت نہ ہوجائے ۔
لہذا مروجہ پوسٹ مارٹم جائز نہیں
التخريج
(۱)مجلة مجمع الفقه الإسلامي – (2 / 6560)
حامل ماتت وولدها حي يضارب- أي في بطنها- يشق بطنها من الأيسر ويخرج ولدها.
فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (3 / 431)
امْرَأَةٌ حَامِلٌ مَاتَتْ وَاضْطَرَبَ فِي بَطْنِهَا شَيْءٌ وَكَانَ رَأْيُهُمْ أَنَّهُ وَلَدٌ حَيٌّ شُقَّ بَطْنُهَا ، فَرْقٌ بَيْنَ هَذَا وَبَيْنَ مَا إذَا ابْتَلَعَ الرَّجُلُ دُرَّةً فَمَاتَ وَلَمْ يَدَعْ مَالًا عَلَيْهِ الْقِيمَةُ وَلَا يُشَقُّ بَطْنُهُ لِأَنَّ فِي الْمَسْأَلَةِ الْأُولَى إبْطَالَ حُرْمَةِ الْمَيِّتِ لِصِيَانَةِ حُرْمَةِ الْحَيِّ فَيَجُوزُ .
أَمَّا فِي الْمَسْأَلَةِ الثَّانِيَةِ إبْطَالُ حُرْمَةِ الْأَعْلَى وَهُوَ الْآدَمِيُّ لِصِيَانَةِ حُرْمَةِ الْأَدْنَى وَهُوَ الْمَالُ ، وَلَا كَذَلِكَ فِي الْمَسْأَلَةِ الْأُولَى انْتَهَى
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (8 / 233)
حَامِلٌ مَاتَتْ فَاضْطَرَبَ الْوَلَدُ فِي بَطْنِهَا فَإِنْ كَانَ أَكْبَرُ رَأْيِهِ أَنَّهُ حَيٌّ يَشُقُّ بَطْنَهَا؛ لِأَنَّ ذَلِكَ تَسَبُّبٌ فِي إحْيَاءِ نَفْسٍ مُحْتَرَمَةٍ بِتَرْكِ تَعْظِيمِ الْمَيِّتِ فَالْإِحْيَاءُ أَوْلَى وَيَشُقُّ بَطْنَهَا مِنْ الْجَانِبِ الْأَيْ……. وَعَنْ مُحَمَّدٍ رَجُلٌ ابْتَلَعَ دُرَّةً أَوْ دَنَانِيرَ لِآخَرَ فَمَاتَ الْمُبْتَلِعُ وَلَمْ يَتْرُكْ مَالًا فَعَلَيْهِ الْقِيمَةُ وَلَا يَشُقُّ بَطْنَهُ؛ لِأَنَّهُ لَا يَجُوزُ إبْطَالُ حُرْمَةِ الْمَيِّتِ لِأَجْلِ الْأَمْوَالِ.
(۲)سنن أبى داود-ن – (3 / 204)
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِهِ حَيًّا ».