فتویٰ نمبر:763
سوال:گذارش یہ ہے کہ میں حبیب اسماعیل ولد محمد اسماعیل ہوں میں آپ سے کچھ رہنمائی حاصل کرنا چاہتاہوں۔
(۱) محترم واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دفعہ غصے میں میں نے اپنی بیوی فاطمہ عمر شمسی بنتِ محمد عمر شمسی کو ایک دفعہ کہا کہ “جاؤ میں نے تمہیں طلاق دی ” یہ الفاظ میں نے ایک دفعہ کہے اس کے بعد وہ تین دن اور تین راتیں میرے ساتھ حسبِ معمول رہیں اس دوران ہمارے دوران میاں بیوی والا تعلق بھی قائم ہوا چوتھے دن وہ حسب معمول مجھ سے اجازت لے کر اپنے بھائی کے گھر گئیں وہاں جاکر جب وہ واپس نہیں آئیں تو ہم نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ طلاق ہوگئی ہے اور اب وہ واپس نہیں آئیں گی اس کے بعد انہوں نے اپنے حلفیہ بیان دیئے جس میں انہوں نے کہا کہ میں ان کو تین دفعہ طلاق دے چکا ہوں ۔
محترم میں بھی حلفیہ بیان دے چکا ہوں کہ میں نے ان کو یہ الفاظ ایک بار کہے ہیں اور اس کے بارے میں میرا ضمیر بھی مطمئن ہے اور کسی شک وشبہ کئے بغیر خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ایک دفعہ کے علاوہ میں نے ان کو یہ کبھی نہیں کہے لیکن وہ میری بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور کسی بھی طرح کی بات کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
گذارش یہ ہے کہ براہِ کرم میری راہنمائی فرمائیں کہ ان حالات کی موجود گی میں دوسرا نکاح کر سکتا ہوں اور پہلی بیوی کی موجودگی میں اس کی اجازت کی ضرورت ہے یا نہیں ؟
(۲) دوسری بات یہ ہے کہ میرے دو بچے ہیں ایک بیٹا جس کی عمر تقریبا ً ۱۰سال ہے اور ایک بیٹی جس کی عمر تقریبا ً ۷ سال ہے ، ان پر شرعی حق کس کا ہے ؟ آیا وہ بچے باپ کے پاس رہیں گے یا ماں کے پاس ؟ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بیٹا میرے پاس ہے اور بیٹی ماں کے پاس ہے برائے کرم میری راہنمائی فرمائیں خدا آپ کو جزائے خیر دے ۔
الجواب حامدا ومصلیا
(۱)واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے ایک مسلمان شخص کو اس شرط کے ساتھ کہ وہ تمام بیویوں کے ساتھ شرعی اصولوں کے مطابق برابری کرے بیک وقت چار نکاح کرنے کی اجازت دی ہے ۔
ارشاد ِ ربانی ہے :
{وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا} [النساء: 3]
ترجمہ : اگر تم کو ڈر ہے کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرلو جو عورتیں تم کو پسند ہیں دودو تین تین چار چار
سو اگر تم کو ڈر ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت سے نکاح کرلو یا ان لونڈیوں پر بس کرو جو تمہاری ملکیت ہوں یہ اس سے قریب تر ہے کہ تم زیادتی نہ کرو ۔
لہٰذا صورتِ مسؤلہ میں چونکہ سائل کی اھلیہ سائل کے گھر میں نہیں ہے اور بظاہر واپسی مشکل ہے اس لئے سائل کے لئے دوسرا نکاح کرنے میں شرعا ً کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر سائل کو گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو تو شرعا ً سائل پر دوسرا نکاح کرنا واجب ہے ۔(۱)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 6):
(وَيَكُونُ وَاجِبًا عِنْدَ التَّوَقَانِ) فَإِنْ تَيَقَّنَ الزِّنَا إلَّا بِهِ فُرِضَ.
وَكَذَا فِيمَا يَظْهَرُ لَوْ كَانَ لَا يُمْكِنُهُ مَنْعُ نَفْسِهِ عَنْ النَّظَرِ الْمُحَرَّمِ أَوْ عَنْ الِاسْتِمْنَاءِ بِالْكَفِّ، فَيَجِبُ التَّزَوُّجُ، وَإِنْ لَمْ يَخَفْ الْوُقُوعَ فِي الزِّنَا.
(۲) باقی جہاں تک سائل کے بچوں کا تعلق ہے تو بیٹا چونکہ دس سالہ ہے اس لئے یہ سائل کے پاس ہی رہے گا البتہ ماں نو سال کی عمر تک بیٹی کو پرورش کے لئے رکھ سکتی ہے پھر والد واپس لے سکتا ہے ۔(۲)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين(3 / 566):
(وَالْأُمُّ وَالْجَدَّةُ) لِأُمٍّ، أَوْ لِأَبٍ (أَحَقُّ بِهَا) بِالصَّغِيرَةِ (حَتَّى تَحِيضَ) أَيْ تَبْلُغَ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ…….(وَغَيْرُهُمَا أَحَقُّ بِهَا حَتَّى تُشْتَهَى) وَقُدِّرَ بِتِسْعٍ وَبِهِ يُفْتَى.وَبِنْتُ إحْدَى عَشْرَةَ مُشْتَهَاةٌ اتِّفَاقًا زَيْلَعِيٌّ. (وَعَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّ الْحُكْمَ فِي الْأُمِّ وَالْجَدَّةِ كَذَلِكَ) وَبِهِ يُفْتَى لِكَثْرَةِ الْفَسَادِ زَيْلَعِيٌّ.
(قَوْلُهُ: وَبِهِ يُفْتَى) قَالَ فِي الْبَحْرِ بَعْدَ نَقْلِ تَصْحِيحِهِ: وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْفَتْوَى عَلَى خِلَافِ ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ.
تاہم مزید سائل کے لئے شرعی طور پر ایک مشورہ ہے کہ وہ اپنی مذکورہ اہلیہ کو مزید ایک طلاق دے کر چھوڑے رکھے تا آ نکہ اس کی تین ماہواری عدت پوری ہوجائے اور شرعی طور پر بلا غبار وہ سائل سے آزاد ہوجائے اور اگر کہیں اور نکاح کرے تو گناہگار نہ ہو
الجواب صحیح
سعید احمد
الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری عفی عنہ
التخريج
(۱)البحر الرائق (3 / 86):
وَعِنْدَ التَّوَقَانِ وَاجِبٌ وَالتَّوَقَانُ مَصْدَرُ تَاقَتْ نَفْسُهُ إلَى كَذَا إذَا اشْتَاقَتْ مِنْ بَابِ طَلَبَ كَذَا فِي الْمُغْرِبِ وَالْمُرَادُ بِهِ أَنْ يَخَافُ مِنْهُ الْوُقُوعَ فِي الزِّنَا لَوْ لَمْ يَتَزَوَّجْ إذْ لَا يَلْزَمُ مِنْ الِاشْتِيَاقِ إلَى الْجِمَاعِ الْخَوْفُ الْمَذْكُورُ، وَأَرَادَ بِالْوَاجِبِ اللَّازِمَ فَيَشْمَلُ الْفَرْضَ وَالْوَاجِبَ الِاصْطِلَاحِيَّ فَإِنَّا قَدَّمْنَا أَنَّهُ فَرْضٌ وَوَاجِبٌ.
تبيين الحقائق (2 / 95):
وَعِنْدَ التَّوَقَانِ وَاجِبٌ) أَيْ النِّكَاحُ سُنَّةٌ وَعِنْدَ شِدَّةِ الِاشْتِيَاقِ وَاجِبٌ لِيُمْكِنَهُ التَّحَرُّزُ عَنْ الْوُقُوعِ فِي الزِّنَا؛ لِأَنَّ تَرْكَ الزِّنَا وَاجِبٌ وَمَا لَا يُتَوَصَّلُ إلَى الْوَاجِبِ إلَّا بِهِ يَكُونُ وَاجِبًا كَوُجُوبِهِ.
البناية شرح الهداية (5 / 6):
قال النسفي: النكاح سنة يعني في حال الاعتدال وعند التوقان يجب وهو غلبة الشهوة.
(۲)الفتاوى الهندية (1 / 542):
وَالْأُمُّ وَالْجَدَّةُ أَحَقُّ بِالْغُلَامِ حَتَّى يَسْتَغْنِيَ وَقُدِّرَ بِسَبْعِ سِنِينَ وَقَالَ الْقُدُورِيُّ حَتَّى يَأْكُلَ وَحْدَهُ وَيَشْرَبَ وَحْدَهُ وَيَسْتَنْجِيَ وَحْدَهُ وَقَدَّرَهُ أَبُو بَكْرٍ الرَّازِيّ بِتِسْعِ سِنِينَ وَالْفَتْوَى عَلَى الْأَوَّلِ وَالْأُمُّ وَالْجَدَّةُ أَحَقُّ بِالْجَارِيَةِ حَتَّى تَحِيضَ وَفِي نَوَادِرِ هِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدٍ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – إذَا بَلَغَتْ حَدَّ الشَّهْوَةِ فَالْأَبُ أَحَقُّ وَهَذَا صَحِيحٌ هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ……..وَبَعْدَمَا اسْتَغْنَى الْغُلَامُ وَبَلَغَتْ الْجَارِيَةُ فَالْعَصَبَةُ أَوْلَى يُقَدَّمُ الْأَقْرَبُ فَالْأَقْرَبُ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4 / 184):
(قَوْلُهُ وَالْأُمُّ وَالْجَدَّةُ أَحَقُّ بِالْغُلَامِ حَتَّى يَسْتَغْنِيَ وَقُدِّرَ بِسَبْعٍ) ؛ لِأَنَّهُ إذَا اسْتَغْنَى يَحْتَاجُ إلَى تَأْدِيبٍ وَالتَّخَلُّقِ بِآدَابِ الرِّجَالِ وَأَخْلَاقِهِمْ وَالْأَبُ أَقْدَرُ عَلَى التَّأْدِيبِ وَالتَّعْنِيفِ………وَبِهَا حَتَّى تَحِيضَ) أَيْ: الْأُمُّ وَالْجَدَّةُ أَحَقُّ بِالصَّغِيرَةِ حَتَّى تَحِيضَ؛ لِأَنَّ بَعْدَ الِاسْتِغْنَاءِ تَحْتَاجُ إلَى مَعْرِفَةِ آدَابِ النِّسَاءِ وَالْمَرْأَةُ عَلَى ذَلِكَ أَقْدَرُ وَبَعْدَ الْبُلُوغِ تَحْتَاجُ إلَى التَّحْصِينِ وَالْحِفْظِ وَالْأَبُ فِيهِ أَقْوَى وَأَهْدَى.