تمام مال صدقہ کرنے کی وصیت پر عمل کی کیا صورت ہوگی ایک وارث راضی نہیں۔

فتویٰ نمبر:762

۱ ۔کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری پرنانی نے وصیت کی کہ میرا تمام سامان اللہ کی راہ میں صدقہ جاریہ میں لگادیا جائے تو اس صورت میں ورثہ کس طرح تقسیم ہوگا ؟

    ۲ اگر تمام اولاداس پر راضی ہوں لیکن ایک بیٹی اپنا حصہ مانگ لے تو اس صورت میں کس طرح تقسیم کرنا چاہئے ؟نیز رقم و زیورات کے ساتھ استعمال شدہ کپڑے بھی دیئے جائیں گے یا اس کو اولاد نشانی کے طور پر رکھ سکتی ہے ؟اگر اولاد ان زیورات کی قیمت دے کر ان زیورات کو نشانی کےطور پر رکھنا چاہے تو یہ جائز ہے ؟

    ۳ حضرت میر ی پرنانی نے کچھ زیورات اپنے بیٹے کو بطورِ قرض دیئے اور کہا کہ ابھی اپنا کام کرلو اور جب حالات ہوں تو مجھے بنوادینا پھر پرنانی نے کہا کہ مجھے اس کی رقم دینا تاکہ میں اسےمسجد کی تعمیر میں لگادوں ۔

اب ان کے انتقال کے بعد اسکی ادائیگی کی کیا صورت ہوگی کیا ایک ساتھ یا اپنی سہولت سے اداکرسکتے ہیں جبکہ ان کی وصیت یہ تھی کہ میرےانتقال کے بعد بھی یہ رقم معاف نہ ہوگی بلکہ اسکو مسجد کی تعمیر میں ہی لگایا جائے ۔

الجواب حامداً ومصلیاً

     واضح رہے کہ کل جائیداد کے ایک تہائی حصہ تک وصیت کرنا جائز ہے اگر کسی نے اس سے زائد وصیت کردی تو شرعاً ایک تہائی سے زائد وصیت کو پورا کرنا ضروری نہیں

     1 لہذا صورتِ مسؤلہ میں مرحومہ نے جو کل سامان کی وصیت کی تھی وہ ایک تہائی تک نافذ کردی جائے ۔

بقیہ دوتہائی ورثاء کا حق ہے اگر تمام ورثاء بخوشی اپنا حصہ چھوڑنے  اور اس وصیت کے مطابق عمل کرنے  پر تیار ہوں تو تمام ترکہ اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا جائے۔

اور اگر تمام ورثاء یا کوئی ایک وارث اس پر راضی نہ ہو تو وہ اپنا شرعی حصہ لینےکا حق رکھتا ہے ۔

            ۲ ۔استعمال شدہ کپڑے اور زیورات بھی ایک تہائی صدقہ کئے  جائیں اور بقیہ ورثاء کا حق ہے ۔

ہاں اگر ورثاء انکی تہائی قیمت ادا کرکے اس تہائی کو بطور نشانی کے رکھنا چاہیں تو یہ جائز ہے ۔

            1 جو رقم بیٹے کو بطورِ قرض کے دی تھی اس میں سے ایک تہائی صدقہ کردیا جائے بقیہ ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

            چناچہ درِ مختار میں ہے :

الدر المختار وحاشية ابن عابدين – (6 / 650)

(وَتَجُوزُ بِالثُّلُثِ لِلْأَجْنَبِيِّ) عِنْدَ عَدَمِ الْمَانِعِ (وَإِنْ لَمْ يُجِزْ الْوَارِثُ ذَلِكَ لَا الزِّيَادَةَ عَلَيْهِإلَّا أَنْ تُجِيزَ وَرَثَتُهُ بَعْدَ مَوْتِهِ)…. (وَهُمْ كِبَارٌ) ۔۔فقط

واللہ سبحانہ اعلم

کتبہ :محمد  مدنی عفی عنہ

دارالافتاء جامعہ معہد الخلیل الاسلامی بہادر آباد کراچی

التخريج
الدر المختار – (6 / 667)
إذا أوصى بثلث ماله لزيد والآخر بثلث ماله ولم تجز ) الورثة فثلثه لهما نصفين اتفاقا……. وإن أوصى لأحدهما بجميع ماله ولآخر بثلث ماله ولم تجز ) الورثة ذلك ( فثلثه بينهما نصفان ) لأن الوصية بأكثر من الثلث إذا لم تجز تقع باطلة
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (2 / 73)
(قَوْلُهُ وَإِنَّمَا يُعْطِي مِنْ ثُلُثِ مَالِهِ) أَيْ فَلَوْ زَادَتْ الْوَصِيَّةُ عَلَى الثُّلُثِ لَا يَلْزَمُ الْوَلِيَّ إخْرَاجُ الزَّائِدِ إلَّا بِإِجَازَةِ الْوَرَثَةِ.

اپنا تبصرہ بھیجیں