مرد کا خلع کی دستاویزات پر دستخط کرنے سے خلع کے وقوع کا حکم

فتویٰ نمبر:764

سوال:زید کی بیوی اور اس کے گھر والوں کی طرف سے خلع کا مطالبہ ہے  ایک پنچایت کمیٹی کے رکن نے زید سے کہا کہ میں نے خود تمہاری بیوی کا بیان لیا ہے وہ مطالبہ کرتی ہے اور ایک تحریر دکھائی جس میں مطالبہ تھا  زید نے کہا کہ اگر میری بیوی میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور خلع  کا مطالبہ کرتی ہے تو میں خلع دے دیتا ہوں زید نے یہ الفاظ کہہ کر تحریرِ مذکورہ پر دستخط کردیئے  یہ دریافت کرنا ہے کہ خلع ہوگیا اب اگر زید دوسری شادی کرنا چاہے تو پاکستان قانون کے تحت کر سکتا ہے ؟

   الجواب حامداومصلیاً          

 صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃ ً زید کی بیوی نے تحریری طور پر خلع  کا مطالبہ کیا تھا جس کے جواب میں زید نے یہ کہا کہ “اگر میری بیوی میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو میں خلع دے دیتا ہوں “اور اس کا مقصد فی الحال خلع دینا ہو جیسا کہ اس کا دستخط کر دینا اس پر قرینہ ہے تو اس سے خلع واقع ہو جائے گااور زید کی بیوی پر طلاق ِ بائنہ واقع ہو جائے گی  اس کے لئے عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا اور زید بھی شرعا ً وقانونا ًدوسری جگہ نکاح کر سکتا ہے

واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

کتبہ :محمد  مدنی عفی عنہ

دارالافتاء جامعہ معہد الخلیل الاسلامی بہادر آباد کراچی

التخريج

(۱)الهداية في شرح بداية المبتدي (2 / 261):

باب الخلع

” وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به ” لقوله تعالى: {فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ} [البقرة: 229] ” فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال ” لقوله عليه الصلاة والسلام: ” الخلع تطليقة بائنة ” ولأنه يحتمل الطلاق حتى صار من الكنايات والواقع بالكنايات بائن.

اللباب في شرح الكتاب (3 / 64):

(إذا تشاق الزوجان) : أي اختلفا ووقع بينهما العداوة والمنازعة (وخافا أن لا يقيما حدود الله) أي ما يلزمهما من موجبات النكاح مما يجب له عليها وعليه لها (فلا بأس أن تفتدي) المرأة (نفسها منه بمال يخلعها به) ؛ لقوله تعالى: {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} الآية (فإذا) قبل الزوج و (فعل ذلك) المطلوب منه (وقع بالخلع تطليقة بائنة) ، لأنه من الكنايات.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4 / 77):

(قَوْلُهُ الْوَاقِعُ بِهِ، وَبِالطَّلَاقِ عَلَى مَالِ طَلَاقٍ بَائِنٍ) أَيْ بِالْخُلْعِ الشَّرْعِيِّ أَمَّا الْخُلْعُ فَقَوْلُهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – الْخُلْعُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ، وَلِأَنَّهُ يَحْتَمِلُ الطَّلَاقَ حَتَّى صَارَ مِنْ الْكِنَايَاتِ، وَالْوَاقِعُ بِالْكِنَايَةِ بَائِنٌ.

المبسوط للسرخسي (6 / 171):

[بَابُ الْخُلْعِ]

(قَالَ) : وَإِذَا اخْتَلَعَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ زَوْجِهَا فَالْخُلْعُ جَائِزٌ، وَالْخُلْعُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ عِنْدَنَا.

اپنا تبصرہ بھیجیں