سوال: زید کی کیفیت غصہ کی حالت میں مجنونانہ ہوجاتی ہے اس حالت میں اسے ماں باپ یا بیوی کسی کا کوئی ادب نہیں ہوتا ،زید نے غصہ کی حالت مجنونانہ میں اپنی بیوی کو مارا اور کہا کہ “میں نے طلاق دی “، اس سے قبل بھی وہ دو دفعہ ایسا کرچکا ہے ،کیا اس کی بیوی کو طلاق بائن ہوئی یا نہیں ؟مطلع فرما کر مشکور و ممنون فرمائیں ، علاوہ ازیں وہ کئی دفعہ اپنی بیوی کو بغیر نیت طلاق کے کہہ چکا ہے کہ اپنی ماں کے پاس چلی جاؤ ۔
الجواب حامدا ومصلیا
صورتِ مسؤلہ میں جب زید نے اپنی بیوی سے غصہ کی حالت میں خط کشیدہ الفاظ کہے اور زید کو اپنے کہے ہوئے الفاظِ طلاق یاد ہیں تو اس سے زید کی بیوی پر طلاق واقع ہوگئی ۔(۱)
الفتاوى الهندية (1 / 353)
يقع طلاق كل زوج إذا كان بالغا عاقلا سواء كان حرا أو عبدا طائعا أو مكرها كذا في الجوهرة النيرة.
تاہم چونکہ زید اس سے قبل بھی دو مرتبہ اسی طرح کے الفاظ ادا کرچکا ہے اس لئے اس مرتبہ ان الفاظ سے اس کی بیوی پر تیسری طلاق واقع ہوگئی جس سے بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ سے حرام ہوگئی ، اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی بغیر حلالہ ِٔشرعیہ کے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے ۔(۲)
باقی جہاں تک زید کی حالت مجنونہ کا ذکر سوال میں ہے اس کا شرعا ً کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ جنون ِشرعی کی حد میں نہیں آتا (۳)۔
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ :محمد سلمان خلیلی عفی عنہ
دارالافتاء جامعہ معہد الخلیل الاسلامی بہادر آباد کراچی
التخريج
(۱)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 235):
(وَيَقَعُ طَلَاقُ كُلِّ زَوْجٍ بَالِغٍ عَاقِلٍ) وَلَوْ تَقْدِيرًا بَدَائِعُ، لِيَدْخُلَ السَّكْرَانُ (وَلَوْ عَبْدًا أَوْ مُكْرَهًا) فَإِنَّ طَلَاقَهُ صَحِيحٌ.
الفتاوى الهندية (1 / 354):
(الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي الطَّلَاقِ الصَّرِيحِ).وَهُوَ كَأَنْتِ طَالِقٌ وَمُطَلَّقَةٌ وَطَلَّقْتُك وَتَقَعُ وَاحِدَةٌ رَجْعِيَّةٌ وَإِنْ نَوَى الْأَكْثَرَ أَوْ الْإِبَانَةَ أَوْ لَمْ يَنْوِ شَيْئًا كَذَا فِي الْكَنْزِ.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2 / 197):
(الصَّرِيحُ هُوَ كَأَنْتِ طَالِقٌ وَمُطَلَّقَةٌ وَطَلَّقْتُك) لِأَنَّ هَذِهِ الْأَلْفَاظَ يُرَادُ بِهَا الطَّلَاقُ وَتُسْتَعْمَلُ فِيهِ لَا فِي غَيْرِهِ فَكَانَتْ صَرِيحًا قَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ – (وَتَقَعُ وَاحِدَةً رَجْعِيَّةً) لِقَوْلِهِ تَعَالَى {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} [البقرة: 229] فَأَثْبَتَ الرَّجْعَةَ بَعْدَ الطَّلَاقِ الصَّرِيحِ.
(۲)الفتاوى الهندية (1 / 473):
وَإِنْ كَانَ الطَّلَاقُ ثَلَاثًا فِي الْحُرَّةِ وَثِنْتَيْنِ فِي الْأَمَةِ لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ نِكَاحًا صَحِيحًا وَيَدْخُلَ بِهَا ثُمَّ يُطَلِّقَهَا أَوْ يَمُوتَ عَنْهَا كَذَا فِي الْهِدَايَةِ.
الهداية في شرح بداية المبتدي (2 / 258):
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة أو ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها ” والأصل فيه قوله تعالى: {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ} [البقرة: 230] فالمراد الطلقة الثالثة والثنتان في حق الأمة كالثلاث في حق الحرة لأن الرق منصف لحل المحلية على ما عرف.
اللباب في شرح الكتاب (3 / 58):
وإن كان الطلاق ثلاثاً في الحرة أو اثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجاً غيره نكاحاً صحيحاً ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها.
(۳)القاموس الفقهي (1 / 70):
الجنون: الاعجاب، وفي الحديث الشريف:
” اللهم إني أعوذ بك من جنون العمل ” أي: الاعجاب به-:زوال العقل، أو فساد فيه- عند الحنفية: اختلال القوة المميزة بين الامور الحسنة، والقبيحة، والمدركة للعواقب، بأن لا تظهر آثارها، وتتعطل أفعالها، إما لنقصان جبل عليه دماغه في أصل الخلقة، وإما لخروج مزاج الدماغ عن الاعتدال بسبب خلط، أو آفة، وإما لاستيلاء الشيطان عليه، وإلقاء اليالات الفاسدة إليه بحيث يفرح.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 9):
قَالَ فِي الْبَحْرِ: وَفِي التَّلْوِيحِ: الْجُنُونُ اخْتِلَالُ الْقُوَّةِ الْمُمَيِّزَةِ بَيْنَ الْأَشْيَاءِ الْحَسَنَةِ وَالْقَبِيحَةِ الْمُدْرِكَةِ لِلْعَوَاقِبِ انْتَهَى. وَالْأَخْصَرُ اخْتِلَالُ الْقُوَّةِ الَّتِي بِهَا إدْرَاكُ الْكُلِّيَّاتِ.