حدیث کا متن اور اسناد کی نوعیت بھی اہم عوامل میں سے ہے۔ متن اور اسناد کی مختلف نوعیات کی بنا پر حدیث کو مندرجہ درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
1) شاذ
امام الشافعی کے مطابق شاذ (irregular) ایسی حدیث کو کہتے ہیں جو کسی قابل بھروسہ راوی کی طرف سے روایت کی گئی ہو مگر اس سے بھی زیادہ قابل اعتماد راوی کی بیان کی گئی کسی دوسری حدیث کے خلاف جاتی ہو۔ تو ایسے میں زیادہ ثقہ راویان کی حدیث کو ترجیح دی جاتی ہے اور دوسری کو شاذ قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔یہ مخالفت سند میں بھی پائی جا سکتی ہے اور متن میں بھی۔ شاذ حدیث کی ایک مثال جامع ترمذی میں مندرجہ ذیل حدیث ہے۔
“عبدالواحد بن زیاد –> الاعمش –> ابو صالح –> ابو ہریرہ رضی اللہ عنه سے مرفوع حدیث روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی فجر کی نماز ادا کرے تو اس کے بعد (اگر سونا چاہے تو) دائیں کروٹ پر سوئے۔”
امام بہیقی کا خیال ہے کہ دائیں کروٹ سونا نبی ﷺ کا عمل ہے نہ کہ ان کا قول۔ ان کا کہنا ہے کہ الاعمش کے ثقہ شاگردوں میں سے صرف عبدالواحد بن زیاد ہی ہیں جو اس کو نبی ﷺ کے قول کے طور پر بیان کر رہے ہیں جبکہ ان کے باقی تمام شاگردوں نے اس کو نبی ﷺ کے عمل کے طور پر بیان کیا ہے۔ تو اکثریت نے جو بیان کیا ہے اسے ترجیح دی جائے گی اور عبدالواحد کی روایت کو شاذ قرار دیا جائے گا۔
جس روایت کی مخالفت میں کوئی حدیث شاذ ٹھہرتی ہے اس روایت کو محفوظ کہتے ہیں۔ شاذ روایت کو مسترد کر کے محفوظ روایت کو لے لیا جاتا ہے۔
–
2۔ منکر (denounced)
حافظ ابن حجر کے مطابق ایک ایسی روایت جو کسی ضعیف راوی کی طرف سے بیان کی جا رہی ہو اور کسی ثقہ راوی کی بیان کردہ روایت کے خلاف بھی جاتی ہو تو اسے منکر کے درجے میں رکھا جائے گا۔ کچھ محدثین تو ضعیف راویان کی بیان کردہ تمام احادیث کو منکر کے درجے میں ہی رکھتے ہیں۔ اور بعض اوقات ایک حدیث کو اسوقت منکر قرار دیا جاتا ہے جب وہ رسول اللہ ﷺ کے عمومی اقوال سے متصادم ہو۔
منکر کے برعکس اگر ثقہ راویوں کی بیان کردہ حدیث میں کوئی قابل بھروسہ راوی اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرے جو حدیث کے متن سے متصادم بھی نہ ہو تو اسے راوی کی رائے کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ روایت کے اس حصے کو “زیادة ثقہ (addition by trstworthy)” کہتے ہیں۔
مثلاً بخاری و مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ فرمایئے:
“ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کونسا عمل زیادہ ثواب کا حامل ہے تو انہوں نے فرمایا کہ وقت پر نماز ادا کرنا۔ “
اس حدیث میں دو راویان الحسن اور بندر نے اس میں کچھ اضافہ کیا ہے “کہ وقت پر نماز ادا کرنے کا مطلب جب نماز کا وقت شروع ہوتا ہے۔ ” دونوں چونکہ قابل بھروسہ راوی ہیں اس لیے ان کے اس اضافے کو ان کے نام سے قبول کیا جائے گا۔-
3۔ مُدرَج (interpolated)
مدرج ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس میں کسی راوی کا اپنا قول بھی حدیث کا حصہ بن جائے اور اسکی نشاندہی نہ کی گئی ہو کہ یہ اضافہ راوی کی طرف سے ہے یا یہ رسول اللہ ﷺ کا قول ہے۔
اس کی مثال حضرت ابو ہریرہ سے بیان کردہ یہ روایت ہے:
“ابی قطن اور شبابہ –> شبابہ شعبہ –> محمد بن زیاد –> ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وضو اچھی طرح کیا کرو۔ ان دھلی ایڑیوں کو آگ کی سزا دی جائے گی۔”
اس میں “وضو اچھی طرح کیا کرو” حضرت ابو ہریرہ ؓ کا قول ہے نبی ﷺ کانہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے صرف اتنا فرمایا کہ “ان دھلی ایڑیوں کو آگ کی سزا دی جائے گی”۔ یہ معاملہ صحیح بخاری کی ایک حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے۔
“آدم –> شعبہ –> محمد بن زیاد –> ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا وضو اچھی طرح کیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ان دھلی ایڑیوں کو آگ کی سزا دی جائے گی۔”
اس روایت کو دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ اوپر والی حدیث میں ابی قطن اور شبابہ کو مغالطہ لگا کہ وضو اچھی طرح کیا کرو بھی رسول اللہ ﷺ کا ہی قول ہے۔ جبکہ آدم کی بیان کردہ روایت میں اسے ابو ہریرہ ؓ کی طرف سے کئے گئے اضافے کے طور پر ہی لیا گیا ہے۔ یوں ابی قطن کی بیان کردہ روایت مدرج ٹھہری۔
اس طرح کا اضافہ حدیث کے شروع ، بیچ یا آخر میں کہیں بھی پایا جا سکتا ہے۔
عموماً یہ ادراج متن میں ہی پایا جاتا ہے مگر بعض اوقات ایسا اسناد میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جب کوئی راوی کسی ایک حدیث کی سند کسی دوسری میں پیوند کر دیتا ہے۔ادراج کا علم کئی ذرائع سے ہو سکتا ہے۔ مثلاً
ا۔ یہی روایت کسی دوسری طرق یا سند سے موجود ہو اور وہاں ادراج کو الگ کر دیا گیا ہو
ب۔ اہل علم تحقیق کر کے واضح کر دیں کہ اس جگہ متن میں ادراج کیا گیا ہے
ج۔ راوی خود اقرار کر لے کہ یہ اس کی اپنی بات ہے جو حدیث میں داخل ہو گئ ہے۔
چ۔ رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے اس بات کا جاری ہونا نا ممکن ہو۔
اگر کوئی راوی ادراج کا عادی ہو تو وہ غیر ثقہ یعنی ناقابل بھروسہ کہلائے گا اور اسکی ساری روایات کو مسترد کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر کسی راوی سے ایسا کبھی غلطی سے ہو گیا ہو یا انہوں نے کسی مشکل بات کو آسان کرنے ے لیے ادراج کیا ہو تو اس راوی کے متعلق محدثین نے نرم رویہ اختیار کیا ہے اور ان کی باقی روایات کو یکسر مسترد نہیں کیا۔