من بشر نی بخروج صفر بشرتہ بالجنۃ
من گھڑت اور ایجاد کردہ باتوں کی کوئی بنیاد تو ہوتی نہیں لیکن جب جاہلوں سے ان کے باطل نظریات کی دلیل مانگی جاتی ہے تو وہ من گھڑت روایتیں اور غلط دلیلیں پیش کیاکرتے ہیں۔ چنانچہ صفر کے منحوس ہونے کے متعلق بھی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
من بشرنی بخروج صفر بشرتہ بالجنۃ ( الموضوعات الکبریٰ ص 224 طبع قدیمی کتب خانہ کراچی)
” جو شخص مجھے ماہ صفر گزرنے کی بشارت دے گا میں اس کو جنت کی بشارت دوں گا “۔
تحقیق :
اول : ملا علی قاری نے جو بڑے جلیل القدر محدث ہیں اپنی مشہور ومعروف کتاب “الموضوعات الکبریٰ ” میں ( جس میں موصؤف نے موضوع یعنی بے اصل اور من گھڑت حدیثیں جمع کی ہیں ) مذکورہ بالا حدیث ذکر کر کے فرمایا ہے : لا اصل لہ ” کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے ۔ لہذا مذکورہ روایت سے استدلال کرنا سراسر جہالت اور گمراہی کی بات ہے ۔
دوم : اگر اس روایت کے الفاظ پر غور کریں تو ان الفاظ میں کہیں بھی صفر کے منحوس ہونے پر کوئی اشارہ نہیں ہے ۔لہذا ان الفاظ سے ماہ صفر کو منحوس سمجھنا محض اختراع اورا پنا خیال ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔
سوم: تھوڑی دیر کے لیے اس روایت کے من گھڑت ہونے سے قطع نظر کر کےاگر اس کے الفاظ پر غور کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات ماہ ربیعا لاول میں ہونے والی تھی اور آپﷺ موت کے بعد اللہ جل شانہ کی ملاقات کے مشتاق تھے ، جس کی ونہ سے آپ ﷺ کو ماہ صفر کے گزرنے اور ربیع الاول کے شروع ہونے کا انتظار تھا اور ایسی خبر لانے پر آپ ﷺ نے اس بشارت کو مرتب فرمایا ، چنانچہ تصوف کی بعض کتابوں میں اسی مقصد سے اس روایت کو ذکر کیاگیا ہے لہذا ماہ صفر کی نحوست اس سے قطعاً ثابت نہیں ہوتی ،
- صفر کا آخری بدھ ، صحت کا دن یا مرض الوفات کا نقطہ آغاز ؟
ماہ صفر کا آخری بدھ جو عوام میں ” سیر بدھ ” کے نام سے مشہور ہے کے متعلق یہ مشہور ہے کہ اس دن رحمت عالم ﷺ نے غسل صحت فرمایا تھا اور سیر وتفریح فرمائی تھی اس لیے اس دن کو ناواقف اور سادہ لوح مسلمان مرد اورعورتیں خوشی کا دن سمجھ کر باغات میں سیر وتفریح کے لیے جاتے ہیں ، شیرینی تقسیم کرتے اور عمدہ قسم کے کھانے پکانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔
تحقیق : مسلمانوں کے تینوں بڑے فرقے دیوبندی ، بریلوی اہل حدیث اس پر متفق ہیں کہ آخری بدھ کے روز رحمت دو عالم ﷺ کے مرض وفات کا آغاز ہوا تھا اورا سی مرض میں آپ ﷺ نے وفات پائی تھی ۔
مشہور مؤرخ ابن سعد ؒ تحریر فرماتے ہیں :
” چہار شنبہ ( بدھ ) 28 صفر کو رسول اللہ ﷺ کے مرض کا آغاز ہوا ” ( طبقات ابن سعد ص206 طبع بیروت )
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی ؒ تحریر فرماتے ہیں :
ماہ صفر کے اخیر عشرہ میں آپ ﷺ ایک بار شب کو اٹھے اور فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ اہل بقیع ( قبرستان مدینہ منورہ) کے لیے استغفار کروں ۔ وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعتہ ً مزاج ناساز ہوگیا۔ سر میں درد اور بخار کی شکایت پیدا ہوگئی ، یہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا ۔”
( سیرت المصطفیٰ ج 3 ص 157)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع ؒ تحریر فرماتے ہیں : “28 صفر 11 ہجری چہار شنبہ ( بدھ ) کی رات میں آپ ﷺ نے قبرستان بقیع غرقد میں تشریف لے جاکر اہل قبور کے لیے دعائے مغفرت کی ۔ وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا اور پھر بخار ہوگیا اور یہ بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اور اسی حالت میں وفات ہوگئی ۔ ( سیرت خاتم الانبیاء ص141)
قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کا فتویٰ :
“آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس دن میں جانب رسول اللہ ﷺ کو شدت مرض واقع ہوئی تھی تو یہودیوں نے خوشی کی تھی ۔ وہ اب جاہل ہندیوں میں رائج ہوگئی ۔ نعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا ۔ ( فتاویٰ رشیدیہ ص 15 مطبوعہ کراچی)
بریلوی مکتبہ فکر کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخان کا فتویٰ :
آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں نہ اس دن صحت یابی حضور ﷺ کا کوئی ثبوت ہے بلکہ مرض اقدس جس میں وفات ہوئی اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے ۔” ( احکام شریعت ص 183 ج3)
بریلوی مکتبہ فکر کے ایک دوسرے عالم دین مولانا امجد فرماتے ہیں :
” ماہ صفر کا آخری چہار شنبہ ہندوستان میں بہت منایا جاتا ہے ۔ لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں سیر وتفریح اور شکار کو جاتے ہیں ، پوریاں پکتی ہیں اور نہاتے دھوتے ہیں ، خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اس روز غسل صحت فرمایاتھا اور بیرون مدینہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے ۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں بلکہ ان دنوں میں حضور ﷺ کا مرض شدت کے ساتھ تھا ، لوگوں کو جو باتیں بتائیں ہوئی ہیں سب خلاف وقاع ہیں ” ( بہار شریعت ص242 ج16)
مذکرہ بالا حوالہ جات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ماہ صفر کا آخری بدھ رسول اللہ ﷺ کے مرض کا آغازکا دن تھا نہ کہ صحت یابی کا۔