پوسٹ مارٹم کرنا کیسا ہے

فتویٰ نمبر:572

سوال:ہسپتال میں مردے کا جو پوسٹ مارٹم کیا جاتاہے اسکاہشرعی حکم کیا ہے؟
میرے ایک عزیز دوست کا انتقال ہوا تو اسکے گھر والوں نے پوسٹ مارٹم کرانے کی اجازت نہیں دی تو ڈاکٹرز نے کہا کہ  اگر آپ پوسٹ مارٹم کی اجازت نہیں دیں گے تو مرده کے لواحقین کو پنشن کی مراعات نہیں ملیں گی.

جواب:واضح رہے کہ انسان مرنے کے بعد بھی اپنے تمام اجزاءکے ساتھ محترم ہے،اس لئے عام حالات میں انسانی لاش کاپوسٹ مارٹم کرنا یاکرواناخواہ تجر بات کیلئے ہو یاجرائم اور قتل کی تقتیش کیلئے ہوسب شرعا ًناجائز ہے،کیونکہ اس میں انسانی لاش کی بے حرمتی ہے جوکہ ناجائزہے،البتہ جہاں قتل کی کوئی ایسی صور ت درپیش ہوکہ ظاہری حالات سے وجوہ ِقتل کاقطعا کوئی پتہ نہ چلتاہو تو ایسی صورت میں پوسٹ مارٹم جائز ہے ، مثلا کوئی شخص مرگیا اسکے بعض ورثاء کہتے ہوں اسے قتل کیاگیاہے ، اور دوسرے یہ کہتے ہوں کہ یہ طبعی موت مراہے، تو ایسی صورت میں سببِ موت کاپتہ چلانے کیلئے پوسٹ مارٹم کی بقدرِ ضرورت اجازت ہے۔(ماخوذاز تبویب :۶۷/ ۱۲۷۹)

نیز مذکورہ ڈاکٹر کی بات عام حالات میں تو درست معلوم نہیں ہوتی، مزید تفصیل مرحوم کے محکمہ سے معلوم کیجئے اور اگر واقعۃ شرعی حاجت ہو تو پھر گنجائش ہے۔
لما فی السير الكبير – (1 / 128):
الآدمي محترم بعد موته على ما كان عليه في حياته… قال صلى الله عليه وسلم: ” كسر عظم الميت ككسر عظم الحى “.
وفی البحر الرائق – (8 / 233):
امرأة حامل ماتت فاضطرب الولد في بطنها فإن كان أكبر رأيه أنه حي يشق بطنها لأن ذلك تسبب في إحياء نفس محترمة بترك تعظيم الميت فالإحياء أولى ويشق بطنها من الجانب الأيسر
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب
مفتی محمد عاصم صاحب
 
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں