دکانداروں کا مبالغہ آرائی سے کام لینے کا حکم

فتویٰ نمبر:542

سوال: دکاندار اپنی چیزوں کی سیل کی جہاں مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ مبالغہ آرائی سے کام لیتا ہے کہ اس کے سامان میں کسی قسم کی خرابی نہیں ہے ہم بھی برسوں سے یہ سامان استعمال کر رہے ہیں وغیرہ۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ سامان جب بھی خراب ہو آپ اسے واپس کردینا۔ مگر جب کسٹمر سامان خراب ہونے کی صورت میں واپس لاتا ہے تو دکاندار مختلف بہانے بنانے لگتے ہیں۔ 

    شریعت کے نقطہ نظر میں دکاندار کا یہ عمل کیسا ہے؟

جواب: اپنے سامان کو بیچنے کےلیےغلط بیانی اور مبالغہ آرائی سے کام لینا جھوٹ اور دھوکہ ہے جو شرعاً حرام ہے۔ اس کی وجہ سے تجارت میں برکت ختم ہوجاتی ہے۔

ارشاد نبوی ﷺ ہے : ”دکاندار اور خریدار اگر کاروبار کرتے وقت صاف صاف معاملہ کریں اور سامان میں کوئی عیب ہو تو اسے معاملہ کرتے وقت بیان کردیں تو ان کے لےے اس معاملے میں برکت ڈال دی جاتی ہے۔ اور اگر وہ جھوٹ کا سہارا لیں اور عیب چھپائیں تو ان کے اس معاملے سے برکت ختم کردی جاتی ہے۔” 

(اعلاء السنن :١٤/٥٨طبع ادارۃ القرآن)

    ایک اور حدیث میں وارد ہے: ”جو دکاندار عیب دار چیز کا عیب بتائے بغیر اسے فروخت کردیتا ہے وہ مسلسل اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی میں رہتا ہے یا (یہ فرمایا کہ) اس پر فرشتے مسلسل لعنت کرتے رہتے ہیں۔ ”

(مشکوٰۃ: ص٢٤٩)

وفی اعلاء السنن: ”من علم بسلعۃ عیبا لم یجز بیعھا حتی یبینہ للمشتری، فان لم یبنیہ فھو اٰثم عاص۔” (١٤/٥٨ خیارالعیب)

تاہم مبالغہ آرائی کرکے اور بتائے بغیر کوئی چیز اس طرح فروخت کردی گئی تو بیع صحیح ہوجائے گی اور اس کا نفع جائز اور حلال ہے۔ 

”فإن باعہ، ولم یتبینہ فالبیع صحیح فی قول اکثر اھل العلم منھم مالک وابو حنیفۃ، والشافعی۔” 

(اعلاء السنن: ١٤/٥٨)

    لہٰذا دکانداروں کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا مال بیچتے وقت جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے بچیں اور سامان میں کوئی عیب ہو تو اسے یا تو صاف صاف بیان کردیں یا کم از کم یہ ضرور کہہ دیا کریں کہ ”مال آپ کے سامنے ہے اس میں اگر کوئی عیب نکل آیا تو میں اس کا ذمہ دار نہیں” یہ بات کہنے کے بعد چیز فروخت کردی تو اب دکان دار کو کوئی گناہ نہیں ہوگا اور مال میں کوئی عیب ہوا تو دکاندار اس کا ذمہ دار بھی نہ ہوگا۔ 

”من باع غلاماً بالبراء ۃ فھو بریء من کل عیب” (اعلاء السنن: ١٤/١٠١)

”اما اذا قلت: بعتک ھذا الشیئ، وھو بین یدیک کما تری وانا بریئ من کل عیب ھو فیہ، فان رضیت بہ فخذہ و الا فاترکہ فلیس ذلک بکذب لا لغۃ ولا شرعاً، ومن ادعی فلیأت ببرھان۔”

    (ایضاً)

٢۔ اگر سامان ، خریدار کے کسی فعل کی وجہ سے خراب ہوا ہو تو دکاندار اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔ لیکن اگر سامان میں عیب دکاندار کے پاس سے آیا ہو جس کی اطلاع خریدار کو سودا طے کرتے وقت اور سامان کو قبضہ میں لیتے وقت نہ ہوئی ہو اور وہ عیب ایسا ہو کہ بازار کے عرف میں ایسے عیب دار سامان کی قیمت، اصل مارکیٹ ریٹ سے کم ہو تو شرعاً دکاندار ایسے عیب کا ذمہ دار ہے۔ ایسی صورت میں دکاندار کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ خریدار کے مطالبے پر سامان واپس لے لے یا دوسرا عیب سے پاک سامان اسے فراہم کرے، ورنہ وہ گناہ گار ہوگا۔ 

والمرجع فی کونہ عیبا أولا؟ لأھل الخبرۃ بذلک، وھم التجار أو أرباب الصنائع ان کان المبیع من المصنوعات، وبھذا قالت الائمۃ الثلاثۃ وسواء کان ینقص العین اولا ینقصھا، ولا ینقص منافعھا بل مجرد النظر الیھا، کالظفر الاسود الصحیح القوی علی العمل وکما فی جاریۃ ترکیۃ لاتعرف لسان الترک۔” (فتح القدیر: ٦/٤طبع رشیدیہ کوئٹہ)

واﷲ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں