اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو ایک مکمل ضابطہ حیات عطا فرمایا ہے۔ جس میں زندگی گزارنے سے متعلق ہر شعبہ زندگی کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں، مثلا س جب بچہ پیداہو تو اس کے داہنے کان میں اذان دی جائے ، بائیں کان میں اقامت کہی جائے ، کسی نیک صالح بزرگ سے اس کی تحنیک کروائی جائے ،اچھا سانام رکھا جائے ، عقیقہ کیاجائے ، جب بولنے لگے تو اسلام کا کلمہ اور الہ کی بڑائی سکھائی جائے ، جب اور بڑا ہوجائے تو نماز سکھائی جائے اور اچھی تربیت کی جائے ۔ اسے طمع ، لالچ ، حرص،بخل ، حسد ، کینہ ، غرور اور ریاکاری وغیرہ جیسے غلط کاموں سے بچنے کی تلقین کی جائے ۔ اس کو سکھلایا جائے کہ جس طرح انسان اپنے جسم وجان کو طاعات ربانی میں مشغول رکھ کر حق جل مجدہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے ، بالکل اسی طرح اپنے مال واسباب کو حکم الٰہی اور منشاء ایزدی میں خرچ کر کے بھی مقرب بارگاہ الٰہی بن سکت اہے ،ا سی طرح اس کی تربیت میں یہ بات بھی اس کے ذہن میں بٹھائی جائے کہ جس طرح ہمارا جسم اللہ تعالیٰ کی ملک ہے اسی طرح ہمارا مال ودولت اور تمام صلاحیتیں بھی اس کی دی ہوئی ہیں ۔ اگر اس مال ودولت کو حکم الٰہی کے مطابق خرچ نہیں کیاگیا تو یہ ہی مال ہمارے لیے وبال بھی بن سکتا ہے ۔ اسی طرح اس کے دل میں جو دو سخا کی عادت ڈالی جائے ۔ صدقہ کی اہمیت اس کے سامنے اجاگر کی جائے ۔ اپنے مال سے زکوٰۃ کی ادائیگی کے فوائد سامنے رکھے جائیں ۔بلکہ دولت جمع کرنے اور اس میں اپنے آپ کو کھپا دینے کے نقصانات سے بھی اس کو باخبر کیا جائے اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رب تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا خوف پیدا یوجائے اور ساری زندگی کا منشااور مقصد رضائے الٰہی کا حصول بن جائے ۔
اسلام کیونکہ حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے نازل کردہ مذہب ہے اس لیے اس نے اپنے ماننے والے ہر فرد کا خیال کیا ہے اور ایک ایسے نظام کو پیش کیا ہے جس میں جہاں امیر عیش وعشرت کے ساتھ زندگی گزارے وہاں غریب کی بھی ضروریات پوری ہوں لیکن غریب کی ضرورت کو پورا کرنے میں اس بات کا خیال رکھا گیا کہ امیر کے اوپر بھی زیادہ بوجھ نہ پڑے ۔ چنانچہ اسلام نے زکوٰ ۃ وعشر کا نظام وضع کیا اور اسی طرح حکومت کو بھی ظالمانہ ٹیکس سے بچانے کے لیے ، خراج ، جزیہ ، صدقات نافلہ، فئے ، خمس ، سرکاری زمین کے محاصل ، غیر مسلم تجارت کے محصول ، اوقاف ، اموال فاضلہ اور وقتی چندے کے عنوانات سے انتہائی مفید نظام تشکیل دیا۔ اگر حکومت ان مدات کا خیال صحیح طور پر کرے تو شاید اسے ٹیکس نہ لگانا پڑے اور اگر لگانا بھی پڑے تو بہت معمولی درجے کا۔
زکوۃ وعشر جہاں غریب کی ضرورت پورا کرنے ک اایک ہمہ جہت طریقہ ہے وہیں ایک اہم عبادت بھی ہے ۔ قرآن کریم نے جہاں نماز کا ذکر کیا ہے وہیں زکوۃ کا بھی ذکر فرمایا ہے چنانچہ بعض مفسرین کے نزدیک چالیس سے زائد مقامات پر اور بعض کے نزدیک اسی سے زائد مقامات پر اس کا ذکر حق تعالیٰ شانہ نے کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح ختم المعصومین ﷺ کےا رشادات وخطبات میں بھی اقامتا لصلوۃ وایتاء الزکوۃ کا ذکر عموما اس طرح کیا گیا ہے کہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی خاص ربط ہے اورا ن دونوں کا درجہ قریب قریب ہے ۔
زکوۃ وعشر میں نیکی وافادیت کے تین پہلو ہیں :
1)جس طرح مومن بندہ نماز کے ذریعہ اپنے رب کے ساتھ تذلل اور نیاز مندی کا مظاہرہ قیام وسجود کی صورت میں کرتا ہے ۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ورحمت اور اس کا قرب اس کو حاصل ہو اسی طرح عشر کی ادائیگی کر کے بھی وہ اپنے مال کے ذریعہ اپنے رب کی رض ا ورحمت کے حصول کا طالب ہوتا ہے اور اس کی ادائیگی کے ذریعہ وہ اس بات کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ یہ مال میرا نہیں بلکہ میرے رب کا ہے اس نے مجھے صرف تصرف یعنی خرچ خرچ کرنے کے لیے اور اپنی ضروریات کے پورا کرنے کے لیے دیا ہے ۔
2)زکوۃ وعشر کے ذریعہ اللہ کے ضرورت مند اور پریشان حال بندوں کی خدمت واعانت ہوجاتی ہے ۔ اس اعتبار سے زکوۃ وعشر کا نظام اخلاقیات کا انتہائی اپم باب ہے ۔
3)زکوۃ وعشر میں تیسرا پہلو یہ ہے کہ مال کی محبت ودولت پرستی کی لعنت جو ایک انتہائی مہلک زہر اور ایمانیات پر حملہ کرنے والی بیماری ہے اس کا علاج اللہ ربا لعزت نے زکوۃ وعشر کے ذریعہ کردیا کیونکہ زکوۃ ایسے اثرات کے لیے تظہیر وتزکیہ کا ذریعہ ہے۔ قرآن کریم نے اسی بات کو ارشاد فرمایا : ” اے نبی ﷺ ! آپ مسلمانوں کے اموال میں صدقہ ( زکوۃ ) وصول کیجئے جس کے ذریعے ان کے قلوب کی تطہیر اور ان کے نفوس ک اتزکیہ ہو ” ۔ ( سورۃ توبہ آیت نمبر 103) اسی طرح ایک اور موقع پر بھی ارشاد فرمایا : ” اور اس آتش دوزخ سے وہ نہایت متقی بندہ دور رکھاجائے گا جو اپنا مال راہ خدا میں اس لیے دیتا ہو کہ اس کی روح اور اس کے دل کو پاکیزگی حاصل ہو ” ( سورۃ اللیل ، آیت 17۔18 ) رسول اللہ ﷺ نے بھی مختلف مواقع پر ہی بات ارشاد فرمائی جیسے کہ سنن بای داؤد کی ایک حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک نے زکوۃ کو اسی لیے فرض کیا ہے کہ اس کی ادائیگی کے بعد جو مال باقی رہ جائے وہ پاک ہوجائے ۔ ( سنن ابی داؤد ) معلوم ہو اکہ زکوۃ وعشر کا نظام ہمارے لیے انتہائی باعث برکت اور باعث خیر ہے کیونکہ جہاں اس کے ذریعے ہمارے ایک غریب بھائی کی ضرورت پوری ہورہی ہے اور پریشانی میں ہم اس کا ہاتھ بٹانے کا شرف حاصل کر رہے ہیں وہاں اللہ رب العزت کی رضا تھوڑا سامال خرچ کرنے سے ہمارا سا مال پاکیزہ اور ساف ہوگیا ہے ۔تو کیوں نہ ہم اس فضیلت کو حاصل کر نے کی کوشش کریں اور زکوۃ کی ادائیگی کو اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھیں اور اپنا فرض سمجھتے ہوئے اور اس کو ایک عظیم نعمت سمجھتے ہوئے راہ خدا میں خرچ کریں ۔
زکوٰۃ ہر اس شخص پر واجب ہے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ (35،612 گرام یعنی تقریبا 613 گرام ) چاندی، یا ساڑھے ساتھ تولہ (479،87 گرام یعنی تقریبا 88 گرام ) سونا ہو یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر نقد رقم ہو اور ایک سال تک باقی رہے تو سال گزرنے پر اس کی زکوۃ واجب ہے اور اگر اس سے کم ہو تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ۔
اسی طرح عشری زمین وہ زمین کہلاتی ہے جس پر پہلے کافروں کا قبضہ تھا مسلمانوں نے ان پر حملہ کر کے حاصل کر لیا اور بادشاہ وقت نے اس زمین کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا۔ تو ایسی زمین کو عشری کہتے ہیں ۔ اسی طرح اگر سارے کافر اس سر زمین کے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا ۔ تو ایسی زمین کو عشری زمین کہتے ہیں ۔ اسی طرح اگر سارے کافر اس سرزمین کے مسلمان ہوگئے اور لڑائی کی ضرورت پیش نہ آئی تو بھی وہ عشری زمین کہلائے گی اور عشری زمین کا حکم یہ ہے کہ اس کی پیداوار پرا گر بارانی زمین ہو تو عشر یعنی دسواں حصہ واجب ہے اور خود پانی لگانا پڑے تو پھر پیداوار کا بیسواں حصہ دینا واجب ہے ۔
مندرجہ بالا باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کتنا منظم اور بھرپور مذہب ہے کہ مال دار سے اتنا مال لیا کہ اس پر بوجھ نہ پڑے اور اسی جگہ کے غریبوں میں تقسیم کردیا کہ ان کی ضروریات بھی پوری ہوجائیں ۔ پس اگر ہم نے اس بات کا خیال نہ کیا اور زکوۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کی تو گزشتہ سطور میں ذکر کیے گئے فضائل سے محروم رہیں گے ۔بلہ سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے چنناچہ رسول اللہ ﷺ نے اس پکڑ سے بھی آگاہ فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ مال زکوۃ جب دوسرے کے ساتھ ملتا ہے تو ضرور اس مال کو بھی تباہ کردیتا ہے ۔ ( مشکوۃ :109 رحمانیہ )’ایک حدیث شریف میں ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے دولت عطا فرمائی اور پھر اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی تو وہ دولت قیامت کے دن اس آدمی کے سامنے ایسے زہریلے سانپ کی شکل میں آئے گی جس کے انتہائی زہریلے ہونے کی وجہ سے اس کے بال جھڑ گئے ہوں گے اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے پھر وہ سانپ ( زکوٰۃ اد ا نہ کرنے ) والے کے گلے میں طوق بنا کے ڈالا جائے گا ۔ پھر اس کی دونوں باچھیں ( یہ سانپ) پکڑلے گا اور کہے گا کہ میں تیری دولت اور تیرا خزانہ ہوں ( مشکوۃ :107 رحمانیہ )
اسی طرح مسلم شریف کی ایک روایت کے آخری الفاظ کا مفہوم یہ ہے : ” کہ اس عذاب کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ حساب کتان کے بعد تمام بندوں کے بارے میں فیصلہ نہ ہوجائے ۔اس کے بعد اس کے بارے میں جنت یا دوزخ کا فیصلہ ہوگا۔ یعنی سب سے آخر میں اس کا فیصلہ ہوگا حالانکہ قیامت کا ایک ایک لمحہ اتنا خوفناک ہوگا کہ اس کا تصور بھی مشکل ہے ۔
ان احادیث شریفہ کی روشنی میں ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی پوری خوش دلی کے ساتھ کریں اور اس میں کوئی حیل وحجت نہ کریں تاکہ مال کی صفائی ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوجائے اور آخرت کے عذاب اور اس دن کی پکڑ سے بچ جائیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین
عشر کے احکام ومسائل
ادائیگی کی تاکید وترغیب :
ارشاد خداوندی ہے ” ‘اے مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور جو چیزیں ہم تنمہارے لیے زمین سے نکالتے ہیں،ان میں سے راہ خدا میں خرچ کرو” ۔ ( بقرۃ :267)
ایک اور جگہ ارشاد ہے : ” جب (ان درختوں ، فصلوں ) کے پھل پک جائیں تو اسے کھاؤ اور جس دن ( فصل توڑو اور کھیتی ) کاٹو تو اس میں سے خدا کا حق بھی ادا کرو۔ ” ( انعام :141 )
ان دونوں آیتوں میں پفروردگار عالم نے ” فریضہ عشر ” کو بیان کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ جب بھی زمین سے پیداوار کٹے ،چاہے وہ سال میں دو یا تین یا اس سے زیادہ مرتبہ ہی کیوں نہ ہو، اس میں سے “خدا کا حق” خدا کی بتلائی ہوئی راہوں میں ضرور خرچ کرنا ہے ۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے :” جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر لی، اس نے اس مال کے تمام شرور سے خود کو محفوظ کر لیا۔ “
( طبرانی اوسط ، ابن خزیمہ ، حاکم ، بحوالہ الترغیب :1/519)
اگر ہم اپنی پیداوار زمین سے “خدا کا حق ” ادا کریں گے تو اس کے تمام نقصانات اور شرور سے پنایہ اور امن مل جائے گا۔ چوری ۔ ڈاکہ سے حفاظت کا سامان ہوجائے گا اور خوب برکت بھی ہوگی اور اگر ہم اس حکم خداوندی پر عمل نہیں کریں گے تو معلوم ہے کیا ہوگا ؟ حدیث میں آتا ہے ” جس شخص نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی ہوگی ، قیامت کے دن اس کے مال کو ” گنجے سانپ ” کی صورت میں بناکر اس شخص کے گلے کا طوق بنادیاجائے گا ” ( نسائی ، ابن ماجہ ، ابن خزیمہ ، بحوالہ الترغیب :1/538 دارالکتب العلمیہ )
حدیث قدسی ہے :” اے ابن آدم ! اپنا مال خرچ کر، ایسا کرے گا تو تجھ پر بھی خرچ کیاجائے گا۔۔ ” ( مشکوۃ : 165 رحمانیہ )
فرمان نبوی ﷺ ہے : ” دو خصلتیں ایسی ہیں جو کسی کامل ایمان والے میں جمع نہیں ہوسکتیں ۔ بخل اور بدخلقی۔ ” (ایضا ً166)
ایک اور حدیث میں ہے ” بخل اور ایمان ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ” ( ایضا)
ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ﷺ ہے : ” اسلام کے تین اجزاء ہیں : نماز، روزہ اور زکوۃ ۔ ” ( الترغیب والترہیب :1/518)
ایک مرتبہ حضور ﷺ نے اپنے اردگرد بیٹھے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے فرمایا : ” آپ لوگ مجھے تین چیزوں کی ضمانت دے دو، میں اس پر آپ کو جنت کی ضمانت دینے کیلئے تیار ہوں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی :”یارسول اللہ وہ کون سی چھ چیزیں ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : ” نماز پرا ستقامت ، زکوۃ پابندی سے ادا کرنا، امانت کی حفاظت ، شرمگاہ کی حفاظت ، حرام آمدنی سے اجتناب اور زبان کی حفاظت ۔ ” (ایضا :1/518)
زکوۃ وعشر ادا نہ کرنے پر وعید یں :
ایک حدیث میں ہے : ” جو شخص نماز تو پابندی سے پڑھتا ہو لیکن زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو تو وہ ایسا مسلمان نہیں جسے اس اک عمل فائدہ دیتا ہے ۔ ” ( یعنی ایسے شخص کے اعمال بے فائدہ اور بے اثر جاتے ہیں، جب تک زکوٰۃ ادا نہ کرلے، اس وقت تک یہی حالت رہتی ہے ) (ا لترغیب :1/540)
ایک حدیث میں ہے : جو شخص زکوٰۃ ادا نہ کرے ،ا س کی نماز شرف قبولیت نہیں پاتی ۔ ” (ایضا :1/540)
ایک حدیث میں ہے :” جو شخص زکوٰۃ اد نہ کرے ، اس کی نماز شرف قبولیت نہیں پاتی ۔” ( (ایضاً :540)
ان وعیدوں سے بچاﷺ بلکہ خدا کی رضا حاصل کرنے کیلئے اس کے ” حکم زکوۃ” پر عمل اور اس پر پابندی ضروری ہے ۔ ” عشر ” اسلام کے نظام زکوٰۃ ہی کا ایک حصہ ہے،اس لیے اس پر عمل بھی نہایت ضروری ہے وہ تمام فضائل جو زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں قرآن حدیث میں وارد ہوئے ہیں وہ اس کے لیے بھی ہیں اور وہ تمام وعیدیں جو زکوٰۃ نہ دینے پر وارد ہوئی ہیں وہ اس کو بھی شامل ہیں ۔لہذا ایک جاگیردار ، زمیندار ، ٹھیکیدار اور کسان وکاشتگار پر ادائیگی عشر اور اس سے متعلقہ مسائل واحکام سے واقفیت از حد ضروری ہے،تاکہ دنیا کا چین سکون،برکت حاصل ہو اور پریشانیوں سے نجات نصیب ہو اور قبر ، آخرت کا توشہ اور سامان ذخیرہ رہے اور وہاں کے وبال سے حفاظت ہو۔ ان مسائل کی واقفیت کیلئے ادارہ کی طرف سے خصوصی اہتمام کیاگیا ہے ۔ سردست ان چند مسائل پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے ،انہیں خوب شوق سے سمجھئے اور عمل کی بھرپور کوشش کیجئے !
مسائل عشر!
عشری زمین :
مسئلہ : عشر ، عشری زمین میں دیاجاتا ہے اور شرعا مندرجہ ذیل زمینوں کے علاوہ تمام زمینیں عشری کہلاتی ہیں۔
1)وہ ارضی جو غیر مسلم کی ملکیت میں ہوں ۔
2)وہ ارضی جن کا کسی وقت غیر مسلم ملکیت میں رہنا معلوم ہو، اگر چہ بعد میں وہ مسلمانوں کی ملکیت میں آگئی ہوں۔ ( فتاویٰ رحیمیہ :7/163،164 ادارالاشاعت )
مسئلہ : دارالحرب کی زمینوں میں عشر ، نصف عشر ، خراج کچھ واجب نہیں۔
مسئلہ : پاکستان بلکہ ہر اسلامی ملک میں تین قسم کی زمینیں ہوسکتی ہیں :
1)ایسی زمینیں جو مسلمانوں کے پاس نسل در نسل ملکیت چلی آرہی یا مسلمانوں سے ہی خریدی ہیں یا بطور ہدیہ واحسان ایسی زمینیں ملیں ہیں اور درمیان میں کسی وقت بھی کسی کافر کی ملکیت نہیں رہیں۔ یہ زمینیں عشری ہیں اور ان کی پیداوار پر عشر دیاجائے گا ۔
2)وہ زمینیں جو مسلمانوں کے غلبے کے بعد پھر کسی طرح کسی کافر کی ملکیت میں چلی جائیں تو وہ عشری نہیں رہتی ،خراجی بن جاتی ہیں اور ایک زمین پر یا تو عشر واجب ہوتا ہے یا خراج ، عشر اور خراج بیک وقت دونوں ایک زمین پر لاگو نہیں ہوتے ۔ البتہ زمینیں ایسی بھی ہوئی ہیں جن پر کفار نے مالکانہ قبضہ نہیں کیا بلکہ انتظامی طور پر قبضہ کیا ایسی زمینوں پر خراج کے بجائے عشر واجب قرار دیاگیا ہے۔ چنانچہ متحدہ ہندوستان میں انگریز نے بہت سی زمینیں مالکانہ قبضے میں نہیں لی تھیں بلکہ انتظامی اور حاکمانہ طور پر اپنی تحویل میں لی تھیں ، ایسی زمینوں پر عشر واجب ہونے کا ہی فتویٰ دیاگیا۔
3)ایسی زمینیں جن کے بارے میں صحیح معلوم نہ ہو کہ وہ کافروں کی رہ چکی ہیں یا مسلمانوں کی چلی آرہی ہیں تو ایسی زمینوں پر عشر واجب ہوگا ۔ ( فتاویٰ رحیمیہ :7/163۔165)
عشر کی مقدار :
مسئلہ : بارانی زمینوں میں جہاں آب پاشی کا کوئی سامان نہیں۔صرف بارش پر پیداوار کامدار ہے یا ندی اور دریا کے کنارے کوئی چیز کاشت کی جائے اور بغیر محنت اور بے سینچے پیداوار ہوجائے تو ایسی زمینوں میں پیداوار کا دس فیصد ( ٪10) یعنی دسواں حصہ دینا واجب ہے مثلا دس من گندم پیداوار ہوئی تو ایک من عشر دینا واجب ہے اور جو اراضی ٹیوب ویل، کنویں یا سرکاری نہر کے خریدے ہوئے پانی سے سیراب ہوتی ہوں تو ایسی زمینوں 5 فیصد (٪5) یعنی کل پیداوار کا بیسواں حصہ عشر نکالنا واجب ہے مثلا بیس من گندم پیداوار ہوئی تو ایک من بطور عشر دینا واجب ہے ۔
مسئلہ : اگر کسی کے پاس دونوں قسم کی اراضی ہوں تو غالب اور اکثر حصہ کا اعتبار ہے یعنی اگرزیادہ زمین بارانی ہے تو مکمل زمین پر دس فیصد واجب ہوگا اور اگر زیادہ زمین نہری ہے تو ساری زمین پر پانچ فیصد واجب ہوگا اور اگر دونوں مساوی ہوں تو بعض کے نزدیک 5 فیصد کے اعتبار سے عشر نکالنا ہوگا اور بعض کے نزدیک عشر کا تین چوتھائی یعنی ساڑھے سات فیصد عشر نکالنا ہوگا مثلا چالیس من میں تین من واجب ہوں گے۔ ‘
مسئلہ: عشر کل پیداوار پر واجب ہوتا ہے اور اس کا کوئی نصاب بھی نہیں، پیداوار تھوڑی ہو یا زیادہ ، عشر واجب ہے البتہ ایک صاع یعنی ساڑھے تین کلو (88۔5 لیٹر ) سے کم پر عشر واجب نہیں ۔ قرض اور زررعت کے اخراجات یعنی بیج ڈالنے ،بیلوں یا ٹریکٹر سے ہل چلانے ، اسپرے کرنے ، حفاظت کرنے اور مزدوروں کےا خراجات بھی پیداوار سے منہا نہیں کئے جاتے ، البتہ جو لوگ کسی خاص حصہ پیداوار پر زراعت کا کام کرتے ہیں ،ا ن کے حصہ کا عشر خود ان پر ہے ۔
مسئلہ: عشر میں سال گزرنا بھی شرط نہیں،سال میں جتنی بار بھی پیداوار ہو ہر مرتبہ عشر نکالنا واجب ہے۔
ادائیگی عشر کا وقت :
مسئلہ: جب فصل قابل اطمینان ہوجائے یعنی اس میں پھل لگ جائیں اور ان کے خراب ہونے کا اندیشہ نہ رہے ،اس وقت کے حساب سے عشر واجب ہے ۔
مسئلہ : فصل کے قابل اطمینا ن ہونے کے بعد اور تیار ہونے سے پہلے جو پھل توڑے اس کا حساب رکھنا ضروری ہے،کیونکہ اس کا بھی عشر دینا واجب ہے ۔
ان چیزوں پر عشر واجب ہے :
جو چیزیں پیداوار میں بچور فائدہ آمدن اصل مقصود ہوتی ہیں ،ان میں عشر واجب ہے اور جو پیداوار میں اصل مقصود نہیں ہوتی۔ اس میں عشر واجب نہیں ۔ چنانچہ ان چیزوں میں عشر واجب ہے :
1)ہر قسم کا اناج ، ساگ ، ترکاری ، میوہ ، پھل ، گندم ، جو ، کھجور، کشمش، آلو ، مکئی ، لہسن ، توری ، کدو، کریلا ، سنگترہ ، چاول ، جوار ، باجرہ ، گنے ، ککڑی ، کھیرے ۔ بینگن ،ا خروٹ ، بادام ، زیرہ ، میتھی ، خشخاش، زعفران وغیرہ ۔
2)کپاس 3) تمباکو اور افیون
4)جانوروں کے چارہ کیلئے اگائی گئی گھاس۔
5)خودرو گھاس جس کی دیکھ بھال کر کے اسے بیچ کر کمائی کی جائے ۔
6)وہ بیچ جن کی پیداوار اصلا مقصود ہو، جیسے سورج مکھی، سرسوں ، سویا لسی وغیرہ کے بیج ۔
7)وہ پھول جن کی پیداوار آمدنی کیلئے مقصود ہو۔
8)عشری زمین یا پہاڑ یا جنگل سے اگر شہد نکالاجائے تو اس میں بھی عشر ہے۔
9)جلاون اور تعمیری لکڑیوں کی فصل پر عشر واجب ہے ۔
10)مکھانے اور سنگھاڑے پر بھی عشر واجب ہے ۔
11) شہتوت کے ذریعہ ریشم کے کیڑوں کی افزائش کی جائے اور اس سے ریشم حاصل کیاجائے تو اس میں عشر واجب ہے ۔
ان چیزوں میں عشر واجب نہیں :
1)وہ بیج جن سے زراعت اصل مقصود نہیں ہوتی ، جیسے تربوز، خربوزہ،ککڑی اور کھیرے کے بیج۔
2)اپنے گھر میں جو درخت وغیرہ سے پیداوار ہو اس پر عشر واجب نہیں ۔اسی طرح گھر کی چھتوں پر کھیتی کی جائے تو اس میں بھی عشر نہیں۔ البتہ اگر کسی علاقے میں مکانات کی چھتوں کو باضابطہ کھیت کے طور پر استعمال کر کے پیداوار حاصل کی جاتی ہو تو اس پر عشر واجب ہے ۔ ( جدید فقہی مباحث )
3) وہ لکڑی ، گھاس، جھاؤ اور کھجور کے پتے اور خودرو پیدا وار جن کو باقاعدہ ذریعہ معاش باننا مقصود نہ ہو اور جن کی عام طور پر کاشت نہیں کی جاتی ۔
فائدہ : ایک چیز بعض مقامات میں قابل قدر ہوتی ہے اور اس کی خرید وفروخت کی جاتی ہے اور وہی چیز بعض جگہ بے قدر ہوتی ہے اور اس کی خرید وفروخت نہیں ہوتی، اسی طرح ایک زمانے میں قابل قدر ہوتی ہے اور دوسرے زمانے میں بے قدر ہوتی ہے لہذا جہاں اور جس زمانے میں وہ قابل قدر ہوگی اس پر عشر واجب ہوگا اور جس جگہ اور جس زمانے میں وہ بے قدر ہوگی اس پر عشر واجب نہیں ہوگا ۔
متفرق اہم مسائل:
مسئلہ: جس فصل کا ایک مرتبہ عشر نکال دیاگیا ۔ اب دوبارہ اس کا عشر نکالنا واجب نہیں۔لہذآ دوسری فصل کے وقت اگر پہلی فصل کا غلہ موجود ہو تو اس پر عشر واجب نہیں ۔ ( کفایت المفتی :4/317 دارالاشاعت )
مسئلہ : جو جانور یا ٹریکٹر کھیتی باڑی کے کام آتے ہٰں ان کی زکوۃ نکالنا واجب نہیں۔ (ایضا )
مسئلہ : اگر فصل کاٹنے سے پہلے ساری کی ساری فصل غیر اختیاری آفت سے تباہ ہوگئی یا باغ کا پھل پھول، کاٹنے سے پہلے آفت سے برپا ہوگیایا چوری ہوگیا تو اس پر بھی عشر واجب نہیں۔ البتہ جانور کھاجائے تو اس سے عشر ساقط نہیں ہوتا۔
مسئلہ: بعض لوگ اپنی زمینوں پر خود ہی کاشت کرتے ہیں اور بعض دوسروں کو کاشت پر دیتے ہیں۔ جو لوگ خود ہی اپنی زمینوں پر کاشت کرتے ہیں تو زمینیں اگر عشری ہیں تو عشر خود ان پر واجب ہوگا اور جو دوسروں کو اپنی زمینیں کاشت پر دیتے ہیں ان کی چند صورتیں ہیں : ایک یہ کہ وہ زمینیں مزارعت یعنی بٹائی پر دیتے ہیں۔ اس صورت میں عشر اپنے اپنے حصے کے بقدر دونوں کے ذمہ لازم ہوتا ہے۔ کاشت کار بھی اور زمین دار پر بھی ۔دوسری صورت یہ ہے کہ کرایہ یعنی ٹھیکہ پر دیتے ہیں مثلا فی بیگہ دس (10) ہزار روپے لیں گے یا فی بیگہ دس (10) من غلہ لیں گے ۔ اس صورت میں عشر لازم ہونے کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر زمین دار نے اجرت بہت زیادہ مقرر کی ہے کہ کاشت کار کے پاس بہت کم بچتا ہے تو عشر زمین دار پر ہے ، ورنہ عشر کاشت کار پر ہے ۔ (امدادالفتاویٰ : 2/58،59 دارالعلوم کراچی)
مسئلہ: اگر فصل یا باغ کو فروخت کردیتے ہیں تو اس میں عشر لازم ہونے کا قاعدہ یہ ہے کہ فصل تیار ہوگئی ہو یا باغ کے پھل پھول پک گئے ہوں اور اس کے بعد انہیں فروخت کیاجائے تو عشر کاشت کار پر ہوگا اور اگر اس سے پہلے فروخت کیا ہے تو عشر خریدنے والے پر ہوگا، کاشت کار پر نہیں۔ (امدادالفتاویٰ :2/57 دارالعلوم کراچی)
مسئلہ: پاکستان میں ابھی تک زمینوں پر ٹیکس کا قانون نہیں بنا ، بالفرض اگر ایسا کوئی قانون بن جاتا ہے اور حکومت اسے عشر کے نام سے وصول کرتی ہے اور پھر اس کے صحیح مصارف میں خرچ بھی کرتی ہے ،تب تو عشر ادا ہوجائے گا،لیکن اگر اس کے مصارف میں خرچ نہیں کرتی توعشر ادا نہیں ہوگا، بلکہ دوبارہ دینا پڑے گا اور اگر حکومت اسے عشر کے نام سے وصول نہیں کرتی بلکہ ٹیکس مال گزاری اور لگان کی حد تک رکھتی ہے تو اس سے بھی عشر ادا نہیں ہوگا۔ ( احسن الفتاویٰ :4/348)
مسئلہ : پیداوار کا عشر پیداوار کے پھل سے ظاہر ہونے کے بعد یا اس کے مکمل پک جانے کے بعد ادا کیاجائے ، پھل ظاہر ہونے سے پہلے اگر عشر ادا کردیا تو عشر اد ا نہیں ہوا۔
مسئلہ : مساجد ، مدارس اور خانقاہوں پر وقف شدہ زمین کی پیداوار پر بھی عشر واجب ہے۔
مسئلہ : اگر گزشتہ سالوں میں عشر اد انہیں کیا تو وہ ذمہ سے معاف نہیں ہوا۔بلکہ ان تمام سالوں کا عشر ادا کرنا واجب ہے ، موت کے وقت اس کی وصیت کرنا بھی واجب ہے ۔
مسئلہ : اگر زمیندار یا کاشت کار اپنی پیداوار خود ہی اپنےا ختیارسے تباہ کردے تو وہ تباہ شدہ فصل کے عشر کا ضامن ہوگا اور یہ اس کے ذمہ قرض بن جائے گا اور اگر پیداوار کے مالک کے علاوہ کسی اور نے پیداوار تباہ کردی تو مالک پیداوارا اس سے تاوان لے کر اس میں سے عشر ادا کرے گا ۔
مسئلہ: اگر کسی نے پھل یا فصل تیار ہونے سے پہلے کسی غیر مسلم کے ہاتھ اس کو بیچ دی تو اس کا عشر کسی پر بھی نہیں،نہ کاشت کار نہ اس غیر مسلم پر ۔ ( احسن الفتاویٰ :4/337)
مسئلہ: کوئی فصل ایسی ہو کہ اس کو سیلاب یا بارش کے پانی سے بھی سیراب کیا جاتا ہو اور سرکاری نہر یا مشین ٹیوب ویل سے بھی سیراب کیاجاتا ہو تو جو پانی مقدار میں زیادہ ہے اس کے اعتبار سے عشر یا نصف عشر ادا کیاجائے گا اور اگردونوں پانی برابر ہوںتو ساڑھے سات فیصد کے اعتبار سے عشر واجب ہوگا ۔ (احسن الفتاوٰی :4/355)
مسئلہ: اگر زمین فروخت کردے تو اس میں وہی تفصیل ہے کہ فصل تیار ہونے پہلے زمین فروخت کی تو عشر اور خراج مقاسمہ خرید کنندہ پر ہوگا۔ ( احسن الفتاویٰ :4 /36)
مسئلہ: یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ جس طرح عشر کا تعلق پیداوار سے ہے اسی طرح خراج مقاسمہ کا تعلق بھی پیداوار سے ہے ۔ ( خراج کے مزید مسائل آگے آرہے ہیں )
مسئلہ : پیداوار کا جب ایک مرتبہ عشر یا خراج نکال دیا جائے تو دوبارہ اس پر عشر یا خراج واجب نہیں ہوتا ۔ یہ حخم اس وقت ہے جب کہ پیداوار کو فروخت کر کے اس سے رقم حاصل کرلی گئی تو اس رقم پر زکوۃ فرض ہوگی ۔ (احسن الفتاویٰ :4/ 370)
مسئلہ: خراج موظف قبل از وقت ادا کرنا صحیح ہے ، عشر اور خراج مقاسمہ میں یہ تفصیل ہے کہ اگر پھل پھول نکلنے یا فصل مکمل تیار ہونے کے بعد نکالا تو صحیح ہے۔ پھل پھول سے قبل نکالا یعنی فصل بونے سے پہلے ہی نکال دیا یا فصل بونے کے بعد اگنے سے قبل نکالا تو عشر اور خراج مقاسمہ ادا نہ ہوگا ، دوبارہ دینا پڑے گا ۔ ( احسن الفتاویٰ :4/ 371)
مسئلہ: عشری یا خراجی زمین تجارت کی نیت سےخریدی جائے تو اس میں عشر وخراج توواجب ہوسکتا ہے ، زکوۃ واجب نہیں ہوگی ۔ ( احسن الفتاویٰ 4/ 376)
فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص خود ہی مستحق زکوۃ وعشر ہو اور حاکم وقت عشر نہ لیتا ہو تو زمین کی پیداوار خود رکھ سکتا ہے اور اس پر عشر نکالنا واجب نہیں ۔ (احسن الفتاویٰ :4/374)
مسئلہ: عشر بصورت جنس دینا بھی جائز ہے اور نقد قیمت کی صورت میں دیان بھی جائز ہے ۔
مسئلہ: عشر بصورت جنس دینا بھی جائز ہے اور نقد قیمت کی صورت میں دینا بھی جائز ہے ،
مسئلہ: عشر بالغ ونابالغ ، مکلف وغیر مکلف سب پر واجب ہے ۔
مصرف عشر :
مسئلہ: عشر کا مصرف وہی ہے جو زکوۃ کا مصرف ہے ۔
مسئلہ: سید اور ہاشمی کو عشر دینا جائز نہیں جو سید اور ہاشمی حضرات اعانت وامداد کے مستحق ہوں ، ان کی خدمت ” عطیات فنڈ ” سے کی جائے ۔
مسئلہ: نو مسلم فقرا کو عشر اور دیگر صدقات میں زیادہ اہمیت دینی چاہیے ، تاکہ اسلام اور مسلمانوں سے رغبت اور قلبی تعلق ان کا زیادہ ہو ۔
خراج کے احکام :
جو زمینیں عشری نہیں ہیں۔ ان میں خراج واجب ہوتا ہے، خراج سال بھر میں ایک مرتبہ واجب ہوتا ہے، چاہے فصل ایک ے زیادہ مرتبہ تیار ہوجاتی ہے ۔
مسئلہ: جس شخص پر خراج واجب ہو وہ خود اگر مستحق زکوٰۃ ہے تو اپنی زمین کا خراج خود ہی استعمال کرسکتا ہے ۔ (امدادالفتاویٰ : 2/65)
خراج کی دو قسمیں ہیں :
1)خراج موظف : یعنی مال اور روپیہ کی صورت میں خراج مقرر ہونا ۔
2)خراج مقاسمہ : یعنی زمین کی پیداوار کا مخصوص حصہ خراج مقرر ہونا ۔
مسئلہ: خراج مقاسمہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب زمین میں پیداوار بھی ہو، لہذا پیداوار نہ ہو تو خراج مقاسمہ واجب نہیں ہوتا۔ جب کہ خراج موظف پیداوار ہونے کی صورت میں تو واجب ہوتا ہی ہے، پیداوار نکہ ہو لیکن زمین میں پیداوار کی قدرت ہو پھر زمین کو بت کار چھوڑ رکھا ہو تو بھی واجب ہوتا ہے ۔ البتہ زمین قابل پیداوار نہ ہو یا قابل پیداوار نہ رہے تو واجب نہیں ہوتا۔ ( امداالفتاویٰ :2/70)
مسئلہ: اگر مسلمان کسی غیر مسلم کو عشری زمین فروخت کردے تو وہ خراجی ہوجائے گی۔
مسئلہ: خراج مقاسمہ عشر کی طرح واجب ہوتا ہے یعنی مالک زمین خود ہی کاشت کرے تو خراج اس پر ہوگا اور اگر دوسرے کو کاشت کیلئے دے تو اگر بتائی پر دی ہو تو کاشت کار اور زمیندار دونوں پر اپنے اپنے حصے کے بقدر واجب ہوگا اور ٹھیکہ پر دی ہو تو اجرت اگر زیادہ ہو تو زمیندار پر ہوگا ورنہ کاشت کار پو ہوگا ، جب کہ خراج موظف کاشت کار کے ذمہ نہیں ، زمیندار کے ذمہ واجب ہوتا ہے ۔
مسئلہ: خراج کے مصارف زکوۃ اور عشر کے مصارف سے مختلف ہیں، زکوۃ اور عشر تو مستحق زکوۃ دینا واجب ہے جب کہ خراج اس کے علاوہ ، رفاعہ عامہ کے کاموں مثلا سڑک ، پل ، ہسپتال ، مدارس دینیہ کی تعمیر ، طلباء اور مدارس ومفتی حضرات کی خدمت میں بھی دیاجاسکتا ہے ۔(امدادالفتاویٰ :2/70)
مسئلہ: جو زمین عشری ہے اس سے عشر ہی دیاجائے گا خراج نہیں اور جو خراجی ہے اس سے خراج ہی دیاجائے گا ، عشر نہیں ،(فتاعیٰ دارالعلوم دیوبند :8/71 ادارالاشاعت )
مسئلہ: ہندوستان یعنی بھارت اسی طرح دوسرے غیر مسلم ممالک میں عشر وخراج کچھ نہیں۔البتہ احتیاط یہ ہے کہ برکت کیلئے اپنے طور پر عشر نکال دیاجائے ۔ ( تحقیق کیلئے دیکھئے : فتاعیٰ دارالعلوم دیوبند : 8/ 174۔ 176)
زکوٰۃ اور عشر میں فرق :
سونا ، چاندی نقدی اورا موال تجارت کی زکوٰۃ اور پیداوار کی زکوٰۃ یعنی عشر میں نو (9 ) فرق ہیں :
1)زکوۃ واجب ہونے کیلئے نصاب ہونا شرط ہے ، جب کہ عشر کیلئے نصاب ہونا کوئی شرط نہیں پیداوار کم ہو یا زیادہ ، عشر ادا کرنا ضروری ہے ۔
2) زکوٰۃ واجب ہونے کیلئے نصاب پر سال گزرنا شرط ہے، جب کہ عشر میں سال گزرنا شرط نہیں ۔ یہ پیداوار کی زکوۃ ہے سال میں جتنی مرتبہ پیداوار تیار ہوگی ، اتنی بار عشر دینا واجب ہے ۔
3)زکوٰۃ واجب ہونے کیلئے سمجھ اور عقل ہونا شرط ہے ، جب کہ عشر واجب ہونے کے لئے بالغ ہونا کوئی شرط نہیں ، نابالغ کی پیداوار پر بھیعشر فرض ہے ،
5)زکوٰۃ واجب ہونے کیلئے آزاد ہونا شرط ہے ، جب کہ عشر واجب ہونے کیلئے آزاد ہونا شرط نہیں۔ مکاتب غلام اور ماذون غلام کی پیداوار میں بھی عشر فرض ہے ۔
6)زکوٰۃ واجب ہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ نصاب کا لاملک ہو، جب کہ عشر واجب ہونے کیلئے زمین کا مالک ہونا شرط نہیں۔ بلکہ مزارع اور ٹھیکہ دار پر بھی عشر واجب ہے جس کی تفصیل گرزچکی ہے ۔
7)زکوٰۃ واجب ہونے کیلئے ایک شرط یہ ہے کہ وہ مال ایسا ہوکہ ایک سال تک باقی رہ سکتا ہو، جب کہ عشر میں یہ شرط نہیں، جو چیز ایک سال تک باقی نہیں رہتی ، جیسے ککڑی ، کھیرا ، خربوزہ ، تربوز اور باقی ترکاریاں ان پر بھی عشر واجب ہے ۔ ( علم الفقہ :497،498 دارالاشاعت )
8)ایک فرق یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ میں قرض منہا کیے جاتے ہیں ، جب کہ عشر میں قرض منہا نہیں کیے جاتے ۔
ایک فرق یہ بھی ہے کہ ایک سال کی زکوٰۃ ادا کرلی تو آئندہ سال بھی اگر نصاب برقرار رہے تو اس کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے ، جب کہ عشر میں ایسا نہیں ، ایک مرتبہ جس پیداوار اور غلہ کا عشر ادا کردیا اب چاہے وہ جتنے سال ۔ بصورت جنس باقی رہے ، دوبارہ اس پر عشر واجب نہیں ہوتا۔
عشر اور خراج میں فرق :
1)عشر ، عشری زمین میں واجب ہوتا ہے ، جب کہ خراج خراجی زمین میں واجب ہوتا ہے ۔
2)عشر سال میں ایک سے زیادہ مرتبہ بھی ادا کرنا پڑسکتا ہے ۔کیونکہ وہ پیداوار کی زکوٰۃ ہے جب کہ خراج سال بھر میں صرف ایک بار ادا کرنا واجب ہے،کیونکہ وہ قابل کاشت زمین کا ٹیکس ہے۔
3)عشر میں ٹیکس کے ساتھ ساتھ عبادت کی بھی حیثیت ہے۔ جب کہ خراج ، خالص ٹیکس ہے۔ اس میں عبادت کی کوئی حیثیت نہیں ۔
4) عشر کے تما م شرعی مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کے ہیں ۔ جب کہ خراج کے مصراف گمشدہ پڑی ہوئی چیز ( لقطہ) کے مصارف کی طرح ہیں ، یعنی خراج میں کسی مستحق کو مالک بنانا ضروری نہیں، بلکہ رفاہ عام کے کاموں میں بھی اس کوا دا کیاجاسکتا ہے ، جب کہ زکوٰۃ ، صدقہ ، فطر اور عشر ،مستحق کو مالک بنا کر دینا ضروری ہے ، رفاہ عام کے کاموں میں انہیں صرف کرنا درست نہیں ۔ اگر مجبوری کی بناء پر کرنا بھی پڑے تو مستحق کو مالک بنائے بغیر پھر بھی درست نہیں۔
5)جو شخص مستحق زکوٰۃ وعشر ہو اور حکومت نے اس سے عشر معاف نہ کیا ہو یا وہ غنی وفقیر سب سے عشر لیتی ہو تو وہ اپنا عشر خود اپنی ذات پر نہیں لگاسکتا، جب کہ خراج میں مستحق شخص اپنا خراج خود ہی اپنی ذات پر لگاسکتا ہے ۔
زکوٰۃ کے اہم مسائل
مسئلہ: زکوٰۃ کے بارے میں یہ قاعدہ رکھنا چاہیے کہ زکوٰۃ ان چار قسم کے اموال میں واجب ہے ۔ 1) سونا 2) چاندی 3) نقدی 4)مال تجارت ۔
جس شخص کے پاس سونا، چاندی ، مال تجارت اور نقدی یا ان میں سے بعض کا مجموعہ اتنا ہو کہ وہ 613 گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اس پر ایک قمری سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے 613 گرام چاندی کی قیمت بدلتی رہتی ہے ، جیولر ی کی دکان سے معلوم کی جاسکتی ہے ۔
مسئلہ: مال تجارت سے مراد ہر وہ مال ، جائیداد ، گاڑی ، مشین وغیرہ ہے جسے خریدتے وقت تجارت کی نیت سے خریدا جائے اور یہ نیت اس کو فروخت کرنے تک باقی بھی رہے ، لہذا تمام سم کے وہ اموال جو تجارت کی نیت سے نہیں خرید ے جاتے ، بلکہ استعمال کیلئے یا رقم کی حفاظت کی خاطر خریدے جاتے ہیں ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ، اسی طرح اگر خریدتے وقت تجارت کی نیت ہو لیکن بعد میں یہ نیت بدل جائے تو بھی اس مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔لہذا گھریلو ضروریات کا سامن ، کراکری ، میز ، کرسیاں ، فرنیچر ، بھلی کا سامان، سجاوٹ، اے سی، مسالہ پیشنے کی مشینیں ، اسی طرح کارخانوں میں زیر استعمال مشینیں ، رہنے کا مکان ،امی ڑیشن کی جیولری ، کپڑے ، گاڑیاں ، ٹیپ ، ریڈیو، ڈیپ فیزر اور جملہ استعمال کی چیزوں پر زکوٰۃ نہیں ۔
مسئلہ: زکوٰۃ کی شرح ڈھائی فیصد ہے۔ ہر 100 روپے پر ڈھائی روپے کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے ۔
مسئلہ: بیسی حاصل کرنے کے بعد بقیہ اقساط کی رقم پر زکوٰۃ نہیں، کسی سے قرض لیا ہو تو اس پر بھی زکوٰۃ نہیں ، مکان یا دوکان کا کرایہ ادا نہ کیا ہو تو اتنی رقم پر بھی زکوٰۃ نہیں۔ ملازمین کی تنخواہ کی رقم ادا کرنی ہے یا بجلی ، گیس، ٹیلی فون یا اور کسی حکومتی ٹیکس کی رقم ادا کرنی ہو تو ان پر بھی زکوٰۃ واجب نہیں ،ا لبتہ بیسی حاصل کرنے سے پہلے جوا قساط بھری ہیں، صاحب نصاب شخص اسے دیگر اموال زکوٰۃ میں شمار کر کے زکوٰۃ نکالے گا ۔
مسئلہ: زکوٰۃ کی ادائیگی میں مال کی ققیمت فروخت کا اعتبار ہے ، قیمت خرید کا نہیں ۔
مسئلہ: موبائل فون پر زکوٰۃ نہیں، اگرچہ وہ محض شوقیہ ہو اور کوئی خاص ضرورت نہ ہو۔
مسئلہ : بچوں کی شادی کیلئے والدین نقدی یا زیوارت جمع کر کے رکھتے ہیں تو اگر یہ بچوں کی ملکیت میں دی دیتے ہیں تو اگر بچے نابالغ ہوں تو اس پر زکوٰۃ نہیں اور اگر بالغ ہیں یا والدین نے بچوں کی ملکیت میں نہیں دیے تو زکوٰۃ واجب ہے ۔
مسئلہ: ایک شخص آدھے ایک گھنٹے کیلئے نصاب کا مالک بنا، پھر اس کے پاس رقم کم ہوگئی ، ختم نہیں ہوھئی تو یہ شخص زکوٰۃ لے سکتا ہے۔
مسئلہ: شوہر اپنی بیوی کو جو تنخواہ دیتا ہے ، اس کا مالک شوہر ہے اور عورت اس کی طرف سے گھریلو اخراجات میں اسے خرچ کرنے کی وکیل ہوتی ہے ، اس رقم کے لینے سے عورت صاحب نصاب نہیں بنتی، البتہ وہ رقم جو عورت کو خاوند وغیرہ کی طرف سے اس کے ذاتی خرچ کیلئے دی جاتی ہے ، وہ عورت کی ملکیت ہوتی ہے اور اس سے وہ صاحب نصاب بن سکتی ہے ۔
مسئلہ: زکوٰۃ کی ادائیگی میں قمری سال کا اعتبار ہے، شمسی سال کا نہیں ، اگر کوئی شخص شمسی سال کو مدار بنائے تو شمسی سال مکمل ہونے سے گیارہ دن پہلے زکوٰۃ نکال لے ۔ کیونکہ شمسی سال میں، قمری سال کے مقابلے میں گیارہ دن زیادہ ہوتے ہیں ۔
مسئلہ: زکوٰۃ کی کٹوتی سے بچنے کیلئے خود کو قادیانی یا غیر مسلم ظاہر کرنا کفر ہے اور کسی کو اس کا مشورہ دینا بھی کفر ہے ۔
مسئلہ: اگر کوئی شخص اپنے اوپر سے زکوٰۃ ساقط کرنے کی نیت سے یہ حیلہ کرے کہ زکوٰۃ کا سال ختم ہونے کے قریب ہو تو وہ مال کسی کو ہبہ کردے ، پھر واپس لے لے تو اگر چہ زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی ، مگر یہ فعل مکروہ تحریمی ہے۔
مسئلہ: صاحب نصاب شخص کا سال پورا ہوگیا، سال پورا ہونے کے بعد کسی طرح بالاختیار مال ضائو ہوگیا۔ مثلا چوری ہوگیا تو زکوٰۃ معاف ہوگئی اور گر خود سے اپنا مال کسی س کو دے دیا اور کسی طرح اپنے اختیار سے اسے ختم کردیا تو زکوٰۃ معاف نہیں ہوگی بلکہ دینا پڑے گی ۔
مسئلہ: کسی عورت کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ہے،ا س نے اس کی زکوٰۃ پیسوں سے ااد کردی تو چونکہ سونے کی مقدار محفوظ ہے اس لیے آئنسدہ سال بھی زکوٰۃ واجب ہوگی ، البتہ اگر وہ سونے کا ہی کچھ حصہ زکوٰۃ میں اد ا کردے تو باقی ماندہ سونا نصاب کے بقدر نہیں رہے گا،ا س صورت میں دیکھاجائے گا کہ اس سونے کے علاوہ اور تو کوئی ایسی چیز نہیں جس پر زکوٰۃ فرض ہے مثلا چاندی ، نقد روپیہ ، مال تجارت ، کسی کمپنی کے شئیرز وغیرہ ، اگر سونے کے علاوہ مذکورہ بالا اشیاء میں سے کوئی چیز موجود ہے چاہے وہ معمولی مقدار میں ہی کیوں نہ ہو مثلا ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو ان سب کی قیمت لگا کر چاندی کے نصاب کے اعتبار سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی اور اگر باقی ماندہ سونے علاوہ کچھ بھی نہیں اورا یسا بہت ہی کم ہوتا ہے تو زکوٰۃ فرض نہیں ۔
مسئلہ: جو مال گم ہوجائے یا دریا میں گرجائے یا کسی نے غصب کرلیاہو اور مالک کے پاس غصب کرنے کا ثبوت نہ ہو تو ایسے اموال پر زکوٰۃ فرض نہیں ، اگر واپس مل جائیں تو بھی گزشتہ سالوں کی زکوۃ فرض نہیں ۔
مسئلہ: جو مال رہن یعنی گروی رکھ اہو اس کی زکوٰۃ نہ راہن پر ہے نہ مرتہن پر ، راہن کے پاس مال آجائے تو بھی گزشتہ سالوں کی زکوۃ فرض نہیں ۔
مسئلہ: جو مال تجارت کیلئے خریدا اور سال بھر تک اس پر خریدار نے قبضہ کیا تو قبضے سے پہلے اس پر زکوۃ فرض نہیں ، لیکن قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سال کی زکوٰۃ نکالنا فرض ہے۔ ( مسائل بہشتی زیور : حصہ عبادات : 311 نشریات اسلام 9
مسئلہ: دانتوں پر سونے کا خول چڑھایا ہو یا سونے کے تاروں سے دانتوں کو باندھا ہو تو اس سونے پر زکوۃ فرض نہیں۔
مسئلہ: کسی کے پاسپانچ دس گھر یا دکانیں ہیں یاایک لاکھ کے برتن خرید لیے ہیں اور ان کو کرایہ پردے کر منافع حاصل کرتا ہے تو ان مکانوں ، دکانوں اور برتنوں پر زکوٰۃ نہیں اس سے حاصل شدہ منافع پر زکوٰۃ ہے۔ ( بہشتی زیور )
مسئلہ: کپڑوں وغیرہ پر سونے چاندی کی میناکاری ہوئی ہو تو سونے چاندی کی مقدار کو دیگر اموال زکوٰۃ کے ساتھ ملا کر زکوٰۃ نکالی جائے گی ۔
مسئلہ: مرغی فارم ، مچھلی کے تالاب کی زمین ، ان سے متعلقہ مکان اور سامان پر زکوٰۃ نہیں، نیز مرغیاں اور چوزے خریدتے وقت خود مرغیاں اور چوزے بیچنے کی نیت ہو تو ان کی مالیت پر زکوٰۃ ہے ،لیکن اگر ان کے انڈے ، بچے بیچنے کی نیت ہو تو ان مرغیوں پر زکوٰۃ نہیں بلکہ خود ان سے حاصل شدہ انڈوں اور چوزوں پرتب بھی زکوٰۃ نہیں، ان کو فروخت کردینے کے بعد اس سے حاصل شدہ قیمت پر زکوٰۃ ہے ۔ (ایضا ً)
مسئلہ: زیور اگرا ستعمال کے ہوں تو اس میں جڑے نگ وغیرہ پر زکوۃ نہیں ہوتی ، سونے چاندی پر ہوتی ہے ۔
مسئلہ: بینکوں اور بچت کے دیگر اادروں میں رقم ھمع کرائی ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے ۔
مسئلہ: پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ فرض نہیں جب یہ رقم اکھٹی مل جائے تو گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ بھی فرض نہیں۔
مسئلہ: جو مہر بیوی کو نہ ملا ہو، یا دیت یا وصیت کا مال ابھی تک نہ ملا ہو تو اس کی وصول یابی سے قبل ان پر زکوٰۃ نہیں۔ وصول کر لینے کے بعد گزشتہ سالوں کی بھی زکوٰۃ نہیں ۔
مسئلہ: جورقم حج وعمرے کیلئے رکھی ہو تو اگر خود اپنے پاس ہی رکھی ہو تو تمام رقم پر زکوٰۃ فرض ہے اورا گر حکومت کے پاس جمع کرائی ہو تو آمدروفت ومعلم وغیرہ کی فیس منہا کر کے بقیہ رقم جو اس کو خرچ کیلئے ملتی ہے، اس پر زکوٰۃ ہے۔ ( مسائل بہشتی زیور : عبادات 322)
مسئلہ: کسی بھی قسم کا قرض چاہے وہ مہر کی صورت میں ہو یا اس کے علاوہ کسی اور معاملے سے ذمہ میں واجب ہوا ہو ،اور خواہ مؤجل ہو یا معجل ، بہر صورت اس کو زکوٰۃ سے منہا کیاجائے گا ۔ ( احسن الفتاویٰ :4/261)
مسئلہ: مکان، دوکان یا زمین وغیرہ خریدنے سے پہلے پہلے جو رقم ادا کی جائے اس پر زکوٰۃ فرض ہے البتہ زکوٰۃ کی ادائیگی اس وقت واجب ہوگی جب بیع مکمل ہوجائے ۔
مسئلہ: کاروبار وغیرہ میں استعمال ہونے والی اشیاء مثلا : آلات ، مشینیں ، فرنیچر ،کار بلڈنگ ، وغیرہ پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ البتہ خود ان چیزوں کی تجارت مقصد ہو تو زکوۃ فرض ہے ۔
مسئلہ: سود، رشوت اور حرام مال کو صدقہ کرنا واجب ہے ان پر زکوٰۃ نہیں۔
مسئلہ: قومی دفاعی سرٹیفیکٹ دراصل ایک قرض ہے جو حکومت کو دیاجاتا ہے لہذا اس پر زکوٰۃ واجب ہے ۔
مسئلہ: جو رقم بیمہ کمپنی میں لگی ہوئی ہو اس پر زکوٰۃ فرض ہے ۔
مسئلہ: قیمتی پتھر اگر تجارت کی نیت سے نہ خریدے ہوں تو ان پر زکوٰۃ نہیں۔
مسئلہ: عشر ، زکوٰۃ یا صدقۃ الفطر کو امانت وغیرہ کی اجرت اور تنخواہ میں دینا ہر گز جائز نہیں البتہ اگر امام اساتذہ وغیرہ مستحق زکوٰۃ ہوں تو تنخواہ کے علاوہ زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔ یعنی تنخواہ الگ مقرر ہو اور زکوٰۃ اس کے علاوہ دی جائے یا پھر معلم صاحب، امام صاحب کی کوئی تنخواہ مقرر نہ ہو اور وہ توجہ سے پڑھائیں ، پھر جس شخص کو جتنی زکوٰۃ دینے کا موقع ملے وہ انہیں دیدیا کرے ۔ لیکن مقررہ نہیں ہوگی ۔ ( فتاویٰ عثمانی :2/ 142)
مسئلہ: زکوٰۃ میں دوائیاں اور کتابیں بھی خرید کر دی جاسکتی ہیں ، لیکن یہ ضروری ہے کہ جس شخص کو دی جارہی ہیں وہ مستحق زکوٰۃ ہو۔
زکوٰۃ کے مستحق :
ہر وہ مسلمان جو ہاشمی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں 613 گرام چاندی یا اس کی ملکیت کے بقدر سونا، نقد رقم ،مال تجارت اور ضرورت سے زائد سامان انفرادی یا اجتماعی طور پر نہ ہو ۔
مسئلہ: زکوٰۃ اپنے والدین ، اپنی اولاد ، اپنی بیوی اور اپنے شوہر کو نہیں دی جاسکتی ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ زکوٰۃ کی نیت سے مستحق شخص کو رقم وغیرہ کا مالک بنادیاجائے ۔ زبان سے کہنا ضروری نہیں۔
مسئلہ: زکوٰۃ کا بہترین مصرف دینی مدارس کے طلبہ بھی ہیں دینی مدارس کو زکوٰۃ دینے والے زکوٰۃ کے فرض سبکدوشی کے علاوہ بہترین صدقہ جاریہ میں بھی حصہ دار ہوجاتے ہیں ۔
مسئلہ : انداز ے سے زکوٰۃ نکالی ، حساب کرنے پر معلوم ہوا کہ زیادہ نکل گئی تو اسے آئندہ سال کی زکوٰۃ شمار کرسکتے ہیں ۔ یا مثلا سونا چاندی کی زکوٰۃ نکالی اور مال تجارت کی بھی زکوٰۃ نکالی ، ایک کی زیادہ نکل گئی ، دوسرے کی کم والے کی تلافی زیادہ والے سے کرسکتے ہیں ۔
مسئلہ: غیر مسلم کو زکوٰۃ ، عشر ، صدقہ ، فطر ، نذر اور کفارے کی رقم دینا درست نہیں، اس کے علاوہ دوسرے صدقات نافلہ اور خیرات وعطیات دینا درست ہے۔
مسئلہ: زکوٰۃ ، عشر ، صدقہ فطر اور صدقات واجبہ کی رقم ہسپتالوں ، سڑک ، پلوں کی تعمیر ، مسجد ، مدرسہ کی تعمیر ، کفن دفن کے انتظامات اورا ساتذہ کی تنخوا ہ کی مد میں دینا درست نہیں ۔ مدارس کے مستحق طلباء کی مد میں دینا درست ہے ۔
مسئلہ: گھریلو اور دفتری ملازمین جو واقعی مستحق زکوٰۃ بھی ہوں ، کو زکوٰۃ ، عشر ، صدقہ فطر ، دینا درست ہے ،۔لیکن اسے تنخواہ کے حساب میں نہ رکھے، بلکہ تنخواہ سے الگ انعام واکرام کے طور پر دے، دل میں زکوٰۃ کی نیت کرلے ۔
مسئلہ: کوئی غریب نادار مستحق زکوۃ اگر قرض مانگنے کی نیت سے آئے اور اسے دل میں زکوٰۃ کی نیت سے زکوٰۃ اور عشر وغیرہ کی رقم ، قرض کے نام سے ادا کردے تو زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے، بعد میں کسی وقت کہہ دے کہ میں نے قرض معاف کردیا اور اگر وہ غریب پھر بھی رقم واپس کردے تو واپس اسے ہدیہ کردے ۔