نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد
قال النبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم: شعبان شھری و رمضان شھراﷲ (شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اﷲ جل شانہ کا مہینہ ہے) (اس حدیث کی تخریج پہلے گزر چکی ہے)
رسالت ِ محمدی کی دوجہتیں:
اﷲ کے نائب بن کر دنیا میں تشریف لائے ہیں۔ اس کی دو جہتیں ہیں ایک جہت کے اعتبار سے اﷲ کے ساتھ شرک کی نفی بھی مطلوب ہے اور دوسری جہت سے اﷲ کے نبی کا شارع اور مطاع (یعنی جس کی اطاعت لازمی ہو) ہونا بھی مقصود ہے۔ پہلی جہت کے اعتبار سے اﷲ کے نبی ﷺنے ان تمام چیزوں کی نفی فرمائی جن کے ذریعے بندہ کے اﷲ کے برابر ہونے کا شبہ ہوتا ہو چنانچہ ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ’’میں اﷲ کا بندہ اور غلام ہوں اور غلاموں کی طرح کھاتا ہوں۔ کسی نے اﷲ کے نبی ﷺکے سامنے یہ جملہ کہا اطیعواﷲ والرسول کہ اﷲ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو تو آپ ﷺ نے یہ جملہ سن کر فرمایا کہ درمیان میں دوبارہ اطیعواکا لفظ استعمال کرو اور اس طرح کہو کہ اطیعواﷲ واطیعوا الرسول یعنی اﷲ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو! یہ اصلاح اﷲ کے نبی نے الفاظ کی اس لیے تاکہ رسول کے لفظ کو اﷲ کے ساتھ ملانے سے کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ رسول، اﷲ کے برابر ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اﷲ کے نبیﷺ کو اﷲ کے برابر قرار دینا جیسا کہ عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اور یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اﷲ کے برابر قرار دیا تھا۔ یہ صحیح نہیں۔ اﷲ کے نبیﷺ، اﷲ کے برابر یا اﷲ کے ساتھ شریک نہیں بلکہ اﷲ کے بندے ہیں۔
نبی علیہ السلام بحیثیت شارع:
دوسری جہت سے کہ اﷲ کے نبیﷺمطاع اور شارع ہوتے ہیں اس سے منکرین حدیث کے اس عقیدے کی نفی ہوتی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺعام انسانوں کی طرح ہیں۔ (معاذ اﷲ) اﷲ کے نبی ﷺکا ارشاد ہے۔ کئی چیزیں اﷲ نے حرام کی ہیں اور کئی چیزیں میں نے حرام کی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اﷲ کے نبی ﷺشارع بھی ہیں۔ اس شارع ہونے کی حیثیت کو بیان کرنے کے لیے ہی اﷲ کے نبیﷺنے فرمایا: ’’شعبان شھری ورمضان شھراﷲ‘‘ یعنی شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اﷲ کا مہینہ ہے۔‘‘
جس طرح اﷲ نے رمضان کے کئی احکام فرض قرار دیے ہیں کئی کو سنت قرار دیا ہے۔ اسی طرح شعبان کے کئی احکام اﷲ کے نبی ﷺ نے خود شروع کیے ہیں اور ان کو سنت قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس حدیث کے یہ معنی تو کسی نے مراد نہیں لیے کہ شعبان شھری کا مطلب یہ ہو کہ شعبان کو اﷲ کے نبی ﷺنے بنایا ہے۔ لہٰذا یہی اس کا معنی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺنے شعبان کے احکام خود سنت قرار دیے ہیں اور ان کو مشروع کیا ہے۔
شعبان میں اکابر کا معمول:
اس لیے شعبان کے مہینے میں ہمارے اکابر کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ روزے رکھتے خاص طور پر 15 شعبان کے روزے کا اہتمام فرماتے تاکہ رمضان کی تیاری کے طور پر ایک عملی مشق ہوجائے اور تجربہ یہی ہے کہ اس روزے کا اثر عام طور پر رمضان کے روزوں کی آسانی میں معاون بنتا ہے اور اس کی وجہ سے رمضان کے روزے رکھنے کی ہمت ہوجاتی ہے۔ اسی طرح 15 شعبان کی رات کی عبادت بھی رمضان کی راتوں میں عبادت کے اندر سہولت اور آسانی مہیا کرتی ہے۔ ساتھ میں اﷲ کے نبی ﷺکی سنت بھی ادا ہوجاتی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ” میں رمضان کے روزے سارا سال قضا نہیں کر سکتی تھی اس خطرے سے کہ کہیں اللہ کے نبی ﷺ کو میری ضرورت پڑجائے اور میں روزے سے ہوں البتہ شعبان کے اندر روزے قضا کر لیا کرتی تھی کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ شعبان میں اکثر دن میں روزے رکھتے تھے ۔”
ارشاد نبوی ﷺ ہے : 15 شعبان کی رات کو اللہ جل شانہ اتنے لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں جتنی بنی بکر کی بھیڑوں کے بال ہیں۔”
اﷲ تعالیٰ اس رات میں ہماری بھی مغفرت فرما دے اور اس دن روزہ رکھنے کی وجہ سے رمضان کے روزے رکھنے میں سہولت پیدا فرما دے۔ شعبان سے اس کی عملی مشق شروع کردیجیے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں 15 شعبان کی رات عبادت کی ہمت دے کر رمضان کی راتوں اور تہجد میں آسانی پیدا فرمادے۔ اس کی عملی مشق بھی اس مہینے سے کرنا ہوگی۔
عبادت میں اخفا افضل ہے:
لیکن یہ واضح رہے کہ جتنا عبادت میں اخفا (چھپانا) ہو اتنا وہ اﷲ کو پسند ہے اس لیے گھر میں رہ کر عبادت کرنا زیادہ پسندیدہ ہے مسجد میں جمع ہوکر عبادت کرنے سے۔ اور اس رات قبرستان جانا جبکہ لوگوں نے اس کو ایک میلے کی شکل دے دی ہے، مناسب نہیں۔ گھر میں رہ کر ایصال ثواب کردینے سے ان شاء اﷲ! اجر مل جائے گا۔ البتہ کوئی ایسا قبرستان ہو جہاں لوگ نہ جاتے ہوں تو وہاں قبروں کی زیارت کے لیے چلے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اﷲ کے نبی ﷺکی حدیث کے مطابق یوم الشک یعنی28، 30,29 شعبان کے روزے رکھنا عام لوگوں کو منع ہے۔ اس لیے ان دنوں میں روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر شعبان کے آخری دن اس نیت سے روزہ رکھنا کہ کل رمضان ہوا تو رمضان کا روزہ ہے اور رمضان نہیں ہوا تو نفلی روزہ ہے۔ اس سے ضرور بچیں! اصل دین نام ہے ماننے کا۔ جب روزہ رکھنے کا حکم دیا تو روزہ رکھا اور جب منع کردیا تو روزے سے رک گئے۔ اسی ماننے کا نام اسلام ہے۔
اﷲ اسلام کے احکام پر اسی جذبے کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں نصیب فرمائے!اور اپنی رضا کا راستہ ہمارے لیے آسان فرمائے۔ آمین!