سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ آجکل تقریبا 90% مسلمان شلوار ٹخنوں سے نیچے کر کے پھرتے ہیں ۔ اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ ان میں سے اکثر ایسا تکبر کی بنا پر نہیں کرتے ۔ کیونکہ آجکل یہ چیز تکبر کی علامات میں سے رہی ہیں ۔ چنانچہ کیا یہ مکن نہیں ہے کہ ہم اپنے فتوے پر نظر ثانی کریں اور لوگوں کو جہنم کی وعید کا مستحق ہونے سے بچائیں ۔ جبکہ امام شافعیؒ خیلاء والی قید کا اعتبار کرتے ہیں اور مطلقاً اسبال ازار کو وعید جہنم کا سبب نہیں ٹھہراتے ۔ تو اگر ان کے قول پر فتویٰ دیدیاجائے تو کیا مناسب نہ ہوگا ؟ جبکہ ضرورت شدیدہ بھی ہے ۔ یعنی تقریبا 90٪ لوگوں کو وعید جہنم ک ا مستحق ہونے سے بچانا ۔ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے امدالفتاویٰ جلد چہارم میں مطلق کو مقید پر محمول نہ کرنیکی دلیل میں نورالانوار کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کی ہے : ” واما اذا وردا ( ای المطلق والمقید ) فی الاسبا ب اوا لشروط فلا مضا یقۃ ولا تضاد فیمکن ان یکون المطلق سبابااطلاقہ والمقید سبباً بتقیدہ ” ( احکام متعلقہ لباس 4/ 122)
اس عبارت میں صاحب نور الانوار نے ” یمکن ” کا لفظ استعمال کیا ہے ” یجب ” کا نہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک دو اسباب کو جمع کرنا ممکن تو ہوا ضروری نہیں۔ لہذا اگر ہم عامۃ الناس کا خیال کرتے ہوئے مطلق کو مقید پر محمول کرلیں تو مناسب ہوگا ، اور پھر حضرت تھانوی ؒ خود فرمارہے ہیں کہ اکثر لوگ اس وقت ایسا تکبر کیوجہ سے کرتے تھے اس لیے خیلاء کی قید لگائی ۔ اگر چہ یہ بات انہوں نے اہپنی دلیل کے طور پر ذکر فرمائی ہے لیکن یہ ہماری دلیل بھی بن سکتی ہے کیونکہ آجکل اکثر لوگ ایسا ازراہ تکبر نہیں کرتے ، لہذا خیلاء والی قید کا اعتبار کرنا ہوگا ۔ اور پھر مطلقاً ” جر” کو سبب وعید ماننا عقل میں بھی نہیں آتا ۔ دیکھئے جتنی بھی وعید ات آئی ہیں انکا کوئی نہ کوئی ظاہری سبب ایسا ضرور ہے جو برا سمجھاجاتا ہو ۔ چند مثالیں دیکھیں
وعید :پیٹ میں انگارے بھرنا
وجہ : یتیم کا مال ظلماً کھانا
وعید : نمازیوں کے لیے ہلاکت
وجہ: نماز میں سستی کرنا
اور بہت سی وعیدیں ایسے اسابب پر منحصر ہیں جو دین اسلام میں تو برے سمجھے ہی جاتے ہیں لیکن وہ لوگ جن کو عقل سلیم حاصل ہے وہ بھی ا نہیں برا شمار کرتے ہیں ۔
ا ب جہنم کی وعید اس وجہ سے کہ تکبر اًاسبال ازار کیا ، سمجھ میں آتی ۔ مگر مطلقاً اسبال کو سبب بنانا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے بعض دفعہ مطلقاً کیوں وعید بیان فرمادی ؟ تو اس کی وجہ زجر وتوبیخ بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ حدیث ” من ترک الصلوۃ متعمداً فقد کفر ” میں ہے ۔ کیونکہ اکثر لوگ تکبراً ایسا کرتے تھے ۔ چنانچہ ساز الذرائع ایسا فرمادیا ۔ لیکن آجکل جب یہ اسبال ذریعہ ہی نہیں رہا تو خیلاء والی قید کو معتبر ماننا ہوگا ۔ واللہ اعلم بالصواب
جواب : واضح رہے کہ تکبر ایک مخفی امر ہے یعنی یہ پتا لگانا آسان نہیں کہ مثلا ً فلاں شخص یہ کام تکبر کی وجہ سے کررہا ہے یا بغیر تکبر کررہا ہے اور ایسی جگہوں پر شریعت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حکم کا دارومدار اس مخفی امر پر رکھنے کی بجائے اس کی علامت پر رکھ دیتی ہے ۔
مثلا ً : نیند کے ناقض وضو ہونے کی اصل علت ریح کا نکلنا ہے لیکن نیند میں اس کا پتہ لگانا مشکل ہے اس لیے خروج ریح پر دارومدار رکھنے کے بجائے خود نیند کو ہی جو اس کی علامت ہے ناقص قرار دے دیاگیا ۔ اسی طرح قصر کی علت مشقت سفر ہے لیکن کہاں مشقت پائی گئی اور کہاں نہیں ؟ اس کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ اس لیے شریعت نے خود سفر کو ہی قصر کی علت قرار دے دیا ۔
بالکل اسی طرح پاینچے ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی ممانعت کا دارومدار تکبر ہی ہے لیکن کس نے تکبر کی وجہ سے پائنچے ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہیں اور کس نے نہیں ؟ یہ ایک مخفی امر ہے لہذا شریعت نے خود ٹکنوں سے پائنچے لٹکانے کو علامت تکبر قرار دے دیا ہے ، جب بھی یہ علامت پائی جائے گی تو سمجھیں گیں گے کہ تکبر کی وجہ سے ہے ، الا یہ کہ کسی دلیل خارجی سے اس تکبت کی نفی ہوجائے ، مثلا : بغیر قصد واختیار کے ازار ڈھلک جائے تو تکبر کی نفی کردیں گے ، جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ازاربغیر اختیار کے ڈھلک جایا کرتی تھی ۔
کسی بھی شخص کے بارے میں یقین سے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ اس میں تکبر نہیں ۔جب دور نبوی اور خیر القرون میں بلکہ آج تک پائنچوں کا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا علامت تکبر سمجھا گیا ہے تو کیا موجودیہ دور کے لوگ پاکبازی میں ان سے بڑھے ہوئے ہیں جو ان سے تکبر کی نفی کردی جائے ؟
دنیا میں نبی پاک ﷺ کے علاوہ کسی کے بارے میں یقین سے تکبر کی نفی نہیں کی جاسکتی ، لیکن آپ ﷺ نے ہمیشہ پائنچے ٹخنوں سے اوپر رکھے ، کیا حضور پاک ﷺ ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہونے کے لیے کافی نہیں ؟
آپ نے امام شافعی ؒ کا حوالہ دیا ہے حالانکہ خود شافعیہ میں بھی اس بات کا اختلاف پایا جاتا ہے کہ اسبال ازار کی ممانعت مطلق ہے یا خیلاء کی قید کے ساتھ مقید ہے۔ چنانچہ امام نووی شافعی نے جہاں ممانعت کو خیلاء کے ساتھ مقید کیا ہے ، وہاں حافظ ابن حجر شافعی کا میلان مطلقاً ماممانعت کی طرف لگتا ہے ، نیز اسبال ازار کے کم سے کم مکروہ تنزیہی ہونے میں خود خیلاء کی قید کا اعتبار کرنے والوں کا بھی اختلاف نہیں ہے ۔ ( دیکھیے فتح الباری :10/316۔324 قدیمی)
آپ نے لکھا ہے : ” مطلقاً ” جر ” کو سبب وعید ماننا عقل میں بھی نہیں آتا ” حالانکہ جراز کی ممانعت اور اس پر وعید کی وجہ محض ایک تکبر ہی نہیں ۔ بلکہ اس کے علاوہ اور بھی وجوہ ہیں۔ مثلا : تشبہ بالجبابرۃ والنساء ، پائنچوں کا نجاست اور گندگی سے ملوث ہونا وغیرہ۔
تو کیا یہ چیزیں بھی خلاف عقل ہیں؟
نیز کیا یہ ضروری ہے کہ ہر حکم کی علت ہمیں سمجھ میں بھی آئے ؟ مامور بہ کا عقل کے موافق ہونے کو ضروری سمجھنا تو معتزلہ کا مذہب ہے۔
پھر مطلقاً جز میں تیقن تکبر نہیں تو مظنہ تکبر تو ضرور ہے اور رسول اللہ ﷺ نے شبہات سے بھی دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے ۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے :
الحلال بین ، والحرام بین ، وبینھما امور مشتبھۃ فمن ترک ماشبہ علیہ من الاثم ، کان لما استبان لہ، اترک ، ومن اجتراء علی ما یشک فیہ من الاثم ، او شک ان یواقع ما استبان ، والمعاصی حمی اللہ ، من یر تع حولا الحمی ۔ یوشک ان یواقعہ ۔” ( صحیح البخاری کتاب البیوع :1/ 275 )
“نورا لانوار ” کی عبارت میں لفظ ” یمکن ” کے مفہوم مخالف سے استدلال بھی قوی نہیں ،ا س لیے کہ مصنف کا اصل مقصود یہ قاعدہ بیان کرنا ہے کہ مطلق اور مقید جب اسبا ب یا شروط میں جمع ہوجائیں تو مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیاجائے گا ۔اس کے بعد ” فیمکن سے وجہ بتائی ہے وہ کوئی مطردومنعکس اور واقعی علت نہیں ، بلکہ تفہیم قاعدہ کی محض ایک عقلی توجیہ ہے ۔
نیز اس کی کیا دلیل ہے کہ یہاں مطلق اور مقید میں تعارض ہے جو مطلق کو مقید پر محمول کر لیاجائے ؟ محض اس وجہ سے تو مطلق کو مقیدد پر محمول نہیں کرسکتے کہ عوام کی اکثریت اس حکم پر عمل پیرا نہیں کیونکہ عوام تو دوسرے اعمال بھی بجا نہیں لاتی ، تو کیا ہم ان میں بھی تخفیف کرتے جائیں گے ؟
امید ہے کہ اس سے آپ کے تمام اشکالات دور ہوگئے ہوں گے