حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق یہ سورت سورۂ واقعہ(سورت نمبر:۵۶) کے بعد نازل ہوئی تھی ،یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا وہ زمانہ تھا جس میں کفار مکہ آپ کی دعوت کے بڑے زور وشور سے مخالفت کرتے ہوئے آپ سے اپنی پسند کے معجزات دکھانے کا مطالبہ کررہے تھے ،اس سورت کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی بھی دی گئی ہے
*او رکائنات میں پھیلی ہوئی اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں کی طرف توجہ دلاکر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کے دل میں انصاف ہو اور وہ سچے دل سے حق کی تلاش کرنا چاہتا ہوتو ا سکے لئے اللہ تعالی کی قدرت کی یہ نشانیاں ا سکی توحید کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں، او راسے کسی اور معجزے کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے
*اسی ضمن میں پچھلے انبیاءئے کرام علیہم السلام او ران کی امتوں کے واقعات یہ بیان کرنے کے لئے سنائے گئے ہیں کہ ان قوموں نے جو معجزات مانگے تھے ، انہیں وہی معجزات دکھائے گئے ،لیکن وہ پھر بھی نہ مانے جس کے نتیجے میں انہیں عذاب الہی کا سامنا کرنا پڑا؛ کیونکہ اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ جب منہ مانگے معجزات دیکھنے کے باوجود کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے ،اس بنا پر کفار مکہ کو مہلت دی جارہی ہے کہ وہ نت نئے معجزات کا مطالبہ کرنے کے بجائے تو حید ورسالت کے دوسرے دلائل پر کھلی آنکھوں سے غور کرکے ایمان لائیں او رہلاکت سے بچ جائیں۔
*کفار مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کاہن کہتے تھے کبھی جادوگر او رکبھی آپ کو شاعر کا نام دیتے تھے، سورت کے آخری رکوع میں ان باتوں کی مدلل تردید فرمائی گئی ہے ،اور کاہنوں او رشاعروں کی خصوصیات بیان کرکے جتایاگیا ہے کہ ان میں سے کوئی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں پائی جاتی، اسی ضمن میں آیت :۲۲۷ نے شعراء کی خصوصیات بیان کی ہیں، اسی وجہ سے سورت کا نام شعراء رکھاگیا ہے ۔
*او رکائنات میں پھیلی ہوئی اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں کی طرف توجہ دلاکر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کے دل میں انصاف ہو اور وہ سچے دل سے حق کی تلاش کرنا چاہتا ہوتو ا سکے لئے اللہ تعالی کی قدرت کی یہ نشانیاں ا سکی توحید کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں، او راسے کسی اور معجزے کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے
*اسی ضمن میں پچھلے انبیاءئے کرام علیہم السلام او ران کی امتوں کے واقعات یہ بیان کرنے کے لئے سنائے گئے ہیں کہ ان قوموں نے جو معجزات مانگے تھے ، انہیں وہی معجزات دکھائے گئے ،لیکن وہ پھر بھی نہ مانے جس کے نتیجے میں انہیں عذاب الہی کا سامنا کرنا پڑا؛ کیونکہ اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ جب منہ مانگے معجزات دیکھنے کے باوجود کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے ،اس بنا پر کفار مکہ کو مہلت دی جارہی ہے کہ وہ نت نئے معجزات کا مطالبہ کرنے کے بجائے تو حید ورسالت کے دوسرے دلائل پر کھلی آنکھوں سے غور کرکے ایمان لائیں او رہلاکت سے بچ جائیں۔
*کفار مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کاہن کہتے تھے کبھی جادوگر او رکبھی آپ کو شاعر کا نام دیتے تھے، سورت کے آخری رکوع میں ان باتوں کی مدلل تردید فرمائی گئی ہے ،اور کاہنوں او رشاعروں کی خصوصیات بیان کرکے جتایاگیا ہے کہ ان میں سے کوئی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں پائی جاتی، اسی ضمن میں آیت :۲۲۷ نے شعراء کی خصوصیات بیان کی ہیں، اسی وجہ سے سورت کا نام شعراء رکھاگیا ہے ۔