سوال: قرآن مقدس میں ایک سورت سورۃ الغاشیہ ہے۔ اس سورت میں ایک آیت “الا من تولی وکفر ” پر وقف کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ کیونکہ مجدد ملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ہمارے استاذ نے ہمیں بتایاتھا کہ اس پر وقف کریں گے تو معنی بالکل خراب ہوجاتا ہے اس لیے وقگ جائز نہیں۔ معنی یہ بن جاتا ہے ۔ لست علیھم بمصیطر الا من تولی وکفر ہم نے آپ کو داروغہ نہیں بنایا (خطاب حضور اقدس ﷺ کو ہے ) مگرا س شخص کو جو کہ رو گردانی کرنے والا ہے اور انکار کرنے والا ہے ۔ ان دو شخصوں کو ہی نگران بنایا ہے ۔ حضور ﷺ کو نہیں۔
تو آیا یہ بات صحیح ہے یا نہیں ؟ اگر صحیح نہیں تو وقف کرنے کی صورت میں نماز ہوجائے گی یا نہیں ؟ اس کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں ۔
1۔ وقت کرنے والے کو معلوم ہوگا۔
2۔ یا معلوم نہیں ہوگا ۔ معلوم نہ ہونے کی صورت میں امام صاحب یا منفرد نے وکفر پر وقف کیا تو آیا یہ تمام مقتدی حضرات مع امام کے نماز لوٹائیں گے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو پھر کیوں ؟ اور لوٹائیں گے تو پھر کیوں ؟
فتویٰ نمبر:70
جواب: آیت “الا من تولی وکفر ” کی کیا تفسیر ہے ؟ کتب تفاسیر کی طرف رجوع کرنے سے چار آراء ملتی ہیں :
1)”الا “حرف استثناء نہیں بلکہ حرف تنبیہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ زید بن علی ، قتادہ اور زید بن اسلم ؒ کی یہی رائے ہے۔
2۔ جمہور کی رائے یہ ہے کہ “الا” حروف استثناء ہے۔ پھر جمہور میں بھی اکثر مفسرین کی رائے میں یہ استثناء ، استثناء منقطع ہے ۔ یعنی صورتا آیت جملہ مستانفہ ہو کر مبتداء ہے اور فیعذبہ اللہ العذاب الاکبر اس کی خبر ہے۔
معنی یوں بنے گا :” آپ ان کفار کو دعوت دیجئے ! آپ کا کام صرف دعوت دینا ہے ۔ ان پر آپ مسلط نہیں ( کہ سب کو مومن بناکر چھوڑنا آپ کی ذمہ داری ہو ) لیکن جس شخص نے ان میں سے رو گردانی کی اور کفر پر قائم رہا ( اس کی ذمہ داری خود اللہ پر ہے ) اللہ ان کو ( آخرت میں ) بڑی سزا دے گا ۔ “
3)بعض کی رائے یہ ہے کہ “الا” استثناء متصل کے لیے ہے جس کا مستژنیٰ منہ ” فذکر ” ہے ۔ درمیان میں ” لست علیھم بمصیطر ” جملہ معترضہ ہے ۔
اس صورت میں مطلب یہ ہوگا : ” آپ ان کفار کو دعوت دیتے رہیے ! آپ کا کام صرف دعوت دینا ہے۔۔۔ ہاں جو رو گردانی کر نے والا اور کفر پر قائم رہنے والا ہو ( جن سے قبول دعوت کی امید نہ رہ گئی ہو ان کو دعوت دینا چھوڑ دیں تو کوئی حرج نہیں ) اللہ عنقریب ایسے کافروں کو بڑی سزا دے گا۔”
4)بعض کی یہ رائے ہے کہ استثناء متصل تو ہے لیکن مستژنی منہ ” علیھم ” کی ضمیر مجرور ہے ۔ آیت “الا من تولی وکفر ” محل جر میں ہے ۔
اس صورت میں معنی یہ بنایا ہے : “آپ ان کفار کو دعوت وتبلیغ کرتے رہیے ! آپ کا کام ( اس وقت) صرف تبلیغ ودعوت ہے ، ان کفار پر آپ مسلط نہیں ( کہ سب کو مومن بنا کر ہی چھوڑڈیں ) ہاں ! مگر ان میں سے جو رو گردانی اور کفر پر قائم رہنے والے ہیں ( ان پر آپ جہاد وقتال کے ذریعے آئندہ مسلط کیے جائیں گے ) اور پھر ( آخرت میں بھی ) اللہ ان کو بڑی سزا دے گا۔”
اور آیت کی پانچویں تفسیر وہ ہے جو آپ نے حضرت تھانوی ؒ کے حوالے سے لکھی ہے ۔
آیت کے پہلے چار معنوں کے اعتبار سے آیت کے معنی میں کوئی خرابی نہیں۔ آپ نے حضرت تھانوی ؒ کے حوالے سے آیت کے جو معنی بیان کئے ہیں صڑف اس کے اعتبار سے ایک گونہ معنی کی خڑابی لازم آرہی ہے اور “زلۃ القاری ” کا یہ اصول ہے کہ وقف نہ کرنے کی جگہ میں وقف کرنے کی جگہ میں وقف نہ کرنے سے اگر معنی بالکل خراب ہوجاتے ہوں تب بھی نماز فاسد نہیں ہوتی ۔
اس لیے اولاً تو پہلے چار معنوں کا احتمال ہوتے ہوئے نماز فاسد نہیں ہوگی اور پانچواں احتمال بالفرض لیاجائے تب بھی اصو ل کے اعتبار سے نماز فاسد نہ ہوگی ۔
1۔ غنیۃ المستملی : “اما الوقف فی غیر موضعہ ، والابتداء من غیر موضعہ ، فلا یوجب ذلک فساد الصلوۃ ایضا۔ لعموم البلوی بانقطاع النفس، او نسیان ، وعدم معرفۃ المعنی فی حق العجم واکثرالعوام ، وھذا عند عامۃ علما ئنا۔۔۔نحو ان یقراء “لاالہ” ووقف ، وابتداء بقولہ “الاھو” ھذا مثال الوقف او قراء ” ولقد وصینا الذین اوتوا لکتاب من قبلکم “ووقف ، وابتداء بقولہ “وایاکم ان اتقواللہ ،” او قراء “یخرجون الرسول ” ووقف ،وابتداء،وقراء “وایاکم ان تؤمنوا باللہ ربکم “الی ٖغیر ذلک من الامثلۃ، کان یقف علی قول بعض الکفار ، ثم یبداء بمقولھم ، بان وقف علی “وقالت الیھود “وابتداء “عزیز بن اللہ “او “یداللہ مغلولۃ” اووقف علی “لقد کفر الذین قالوا “وابتداء “ان اللہ ھو المسیح ابن مریم ” او “ان اللہ ثالث ثلثۃ “او نحو ذلک ، فالصحیح عدم عدم الفشا فی ذلک کلہ : لما تقدم ، ولانہ نظم القرآن (ص 480،481 سہیل )
2۔ وفیہ : “والتحقیق فیہ (ای الخطاء فی الاعراب) العمل بصحۃ المعنی بوجہ محتمل ،وعدمھا،کما قررنا انہ قاعدتھم الغیر المنخرمۃ ۔ ” (ص 484 سہیل اکیڈمی لاہور) ‘3۔فی حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح :” المسالۃ الثانیۃ فی الوقف ، والابتداء فی غیرہ ووضعھا : فان لم یتغیر بہ المعنی ، لا تفسد بالاجماع من المتقدمین والمتاخرین ۔ وان تغیر بہ المعنی فھی اختلاف ، والفتوی علی عدم الفشا بکل حال ، وھو قول عامۃ علمائنا المتاخرین ، لان فی ،راعاۃ الوقف ، والوصل ،ایقاع الناس فی الحرج ، لاسیما العوام ،والحرج مرفوع، کما فی الذخیرۃ ، والسراجیۃ، والنصاب ، وگیہ ایضا :” لو ترک الوقف فی جمیع القرآن ، لا تفسد صلاتہ عندنا ” (ص340 قدیمی) واللہ سبحانہ وتعالیٰ
محمد انس عبدالرحیم
دارالافتاء معہد الخلیل الاسلامی