تعارف سورۃ عبس

یہاں سے آخر تک ہر سورت ایک رکوع پر ہی مشتمل ہے ،اس سورت کی ابتداء میں نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا قصہ مذکور ہے جو طلب علم کے لئے ایسے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے جب کہ آپ چند سردارانِ قریش کو دعوت اسلام دینے میں مصروف تھے ،ایسی اہم مصروفیت کے وقت ان کے آنے سے آپ کو طبعی طور پر ناگواری ہوئی، اور آپ نے ان کی بات کا جواب دینے سے اعراض کیا، اس پر سورۂ عبس کی یہ آیات نازل ہوئیں ،جن میں اللہ نے آپ کو تنبیہ فرمائی ،اس کے بعد جب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو ان کا استقبال کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے یہ ہیں وہ جن کی وجہ سے اللہ نے مجھے تنبیہ فرمائی تھی، اور ان سے دریافت فرماتے کہ کوئی کام ہے تو بتاؤ ،آپ نے نابینا ہونے کے باوجود دو غزوات کے موقع پر انہیں مدینہ پر والی مقرر فرمایا،یہ واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ فرمائی گئی ہے ،ان کا قرآن کریم میں مذکور ہونا اس کی صداقت وحقانیت کی دلیل ہے ،اگر معاذاللہ قرآن آپ کا خود تراشیدہ کلام ہوتا تو آپ ایسی آیات اس میں ہرگز ذکر نہ فرماتے جن میں خود آپ سے باز پرس کی گئی ہے۔

اگلی آیات میں رب تعالی کی قدرت اور وحدانیت کے تکوینی دلائل ہیں اور اختتام پر قیامت کا وہ ہولناک منظر بیان کیاگیا ہے جب انسان خوفزدہ ہوکر قریب ترین رشتوں کو بھی بھول جائے گا ،نفسا نفسی کا عالم ہوگا،کسی کو کسی کی فکر نہیں ہوگی، ہر کسی کو اپنی ذات کا غم کھائےجارہا ہوگا، بہت سے چہروں پر کامیابی کی چمک ہوگی، اور بےشمار چہروں پر ناکامی کی ذلت اور تاریکی چھائی ہوگی۔

(خلاصہ قرآن

اپنا تبصرہ بھیجیں