مدرسہ تعلیمات قرآنیہ کا اگلا تعلیمی سال بابت ماہ شوال 1431ھ تا شعبان 1432 ھ ان شاء اﷲ8,7شوال سے شروع ہوگا۔ اس تعلیمی سال میں مدرسہ درجہ ابتدائیہ اول، متوسطہ سال اول، متوسطہ سال دوم، اُولیٰ الف، اولیٰ ب، اولیٰ ج، ثانیہ اور ثالثہ کے کل آٹھ درجات پر مشتمل ہوگا۔ مذکورہ درجات میں سے ابتدائیہ اول، متوسطہ اول ، اولیٰ الف، ثانیہ اور ثالثہ میں داخلے دیے جائیں گے ۔ ان درجات میں داخلوں کی شرائط اعلانِ داخلہ میں مذکور ہیں۔ زیر نظر تحریر میں مدرسے کے تعلیمی نظام کا مختصر خاکہ پیش کیا جارہا ہے۔
مدرسے میں رائج کردہ تعلیمی نظام کی بنیادیں اس امر پر استوار کی گئی ہیں کہ اﷲ رب العزت کی رضا کی خاطر بچوں کے اوقات اور صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ کار آمد بنایا جائے۔ طلبہ کو دینی علوم رسوخ کے ساتھ سکھائے جائیں۔ انہیں دینی خدمات کی انجام دہی کے لےے تیار کیا جائے اور انہیں عصری تقاضوں سے آگاہی حاصل کرنے کے قابل بنایا جائے۔ طلبہ کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ پختہ ایمانی مزاج کے ساتھ معاشرتی اصلاح و فلاح کا کام سرانجام دے سکیں۔ بیان کردہ مقاصد کے حصول کے لیے اسباب و وسائل کے ذیل میں ایک باصلاحیت، پرعزم، مخلص اور دیانت دار افراد پر مشتمل ٹیم کے ساتھ عام مسلمانوں کے بھرپور تعاون کی ضرورت بھی ہے۔ اس کے علاوہ مدرسے کی عمارت، معاون تعلیمی ذرائع اور سازگار محل وقوع کی اہمیت بھی محتاج بیان نہیں۔ الحمدﷲ مدرسے کے مہتمم حضرت مفتی سعید احمد مدظلہ کی شخصیت پر اہل ایمان کا اعتمادہے چنانچہ گزشتہ تین برس کے عرصے میں دین سے محبت اور قوم سے ہمدردی رکھنے والے حضرات کے تعاون کی بدولت مدرسے کے لےے ضروری وسائل مہیا ہوتے رہے ہیں۔ اساتذہ کرام کی ایک جماعت تعلیمی نظم و نسق کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ہمہ تن اور شب و روز مصروف کار ہے۔
مدرسے میں درجہ ابتدائیہ اول سے دینی تعلیم شروع ہو جاتی ہے۔ متوسطہ سال اول میں ( جسے چھٹی جماعت کے متوازی سمجھا جا سکتا ہے) علم الصرف ، علم النحو، دروس اللغۃ، ترجمہ عم جیسے مضامین کی تعلیم کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ متوسطہ دوم میں عربی متن پر مشتمل دینی کتب پڑھائی جاتی ہیں۔ اس طرح اولیٰ اور ثانیہ کے درجات تک پہنچتے پہنچتے طلبہ کی استعداد خاصی پختہ ہوجاتی ہے۔
مدرسے میں دینی تعلیم کا آغاز آج سے پانچ برس قبل ہوا تھا تاہم جس نظام کا آپ کے سامنے ذکر کیا جارہا ہے اس کی بنیاد تین برس قبل ڈالی گئی۔ مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والے قدیم طلبہ کو درجات ثالثہ، رابعہ اور خامسہ کے ساتھ میٹرک تک تعلیم دی گئی۔ بعد ازاں انہیں بڑے جامعات کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا گیا کیوں کہ جگہ کی تنگی اور وسائل کی قلت کی بنا پر مدرسہ موجودہ نظام کے ساتھ ان طلبہ کی خدمت سے قاصر تھا۔ چنانچہ نئے تعلیمی سال کے آغاز میں مدرسے میں درجہ ثالثہ تک تعلیم ہوگی۔ درجہ ثانیہ و ثالثہ کے طلبہ میٹرک کا امتحان دے کر انٹر کا آغاز کردیں گے جبکہ عصری تعلیم کے ساتھ وہ دینی تعلیم میں بھی عمدہ استعداد کے حامل ہوں گے۔(ان شاء اﷲ)
نچلے درجات میں درجہ اولیٰ (الف ) ایسے طلبہ کے لےے قائم کیا گیا ہے جو کم از کم ساتویں جماعت تک عصری تعلیم کی استعداد رکھتے ہوں تاکہ انہیں دو سالوں میں دینی تعلیم کی پختہ استعداد فراہم کرکے اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے تیار کیا جائے جبکہ عصری تعلیم میں وہ میٹرک کا امتحان دے سکیں۔ اُولیٰ (ب) مدرسہ کے درجہ اولیٰ (الف )کے طلبہ پر مشتمل ہوگی۔ اس درجے میں داخلے کے لےے خاص نوعیت کے امیدوار ہی کامیاب ہوسکتے ہیں، یعنی جو درجہئ اولیٰ پڑھ چکے ہوں اور مڈل تک عصری تعلیم کے حامل ہوں کیونکہ اس درجے کے طلبہ تعلیمی سال ٣٢،١٤٣١ھ میں ان شاء اﷲ نویں کا امتحان دیں گے۔ جبکہ اگلے سال انہیں ثانیہ میں وفاق المدارس کا جبکہ میٹرک بورڈ سے جماعت دہم کا امتحان دینا ہوگا۔
درجہ اولیٰ ج، درجہ متوسطہ دوم کے طلبہ پر مشتمل ہوگی۔ مدرسے کے مخصوص نظام کی بنا پر اس درجے میں باہر سے کسی طالب علم کو داخلہ نہیں دیا جا سکتا۔ متوسطہ دوم کے طلبہ متوسطہ سال اول پڑھ کر آئے ہیں لہٰذا یہاں باہر سے کسی داخلے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ ابتدائیہ اول اور متوسطہ اول پر داخلے کی گنجائش ہوگی۔
مدرسے میں دونوں طرز کی تعلیم کے درمیان اعتدال اور توازن برقرار رکھنے کے لےے بہت سے اقدامات کئے گئے ہیں۔ مدرسے میں نظام پر نظر رکھنے والی ٹیم میں دینی اور عصری علوم سے واقفیت رکھنے والے حضرات شامل ہیں جن کی مشاورت سے تمام تعلےمی امور طے پاتے ہیں۔ علاوہ ازیں مدرسہ کا امتحانی نظام طلبہ کی صلاحیتوں کی جانچ اور انہیں دونوں طرح کے علوم پر مسلسل محنت کرنے پر آمادہ رکھتا ہے۔