یہ سورت مدنی ہونے کے باوجوداس کی مضامین مکی سورتوں جیسے ہیں، اس میں جنت اور جنت کی نعمتوں ،جہنم او رجہنم کے عذابوں کا بیان ہے ،صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز فجر میں اس سورت کی تلاوت کرتے تھے،اس سورت کی ابتداء میں اللہ تعالی کی قدرت عظیمہ کا بیان ہے کہ اس نے کیسے انسان کو مختلف ادوار میں پیدا فرمایا او راس کو سمع وبصر اور عقل وفہم سے نوازا تاکہ وہ طاعت وعبادت کی ان تمام ذمہ داریوں کو ادا کرسکے جن کا اسے مکلف بنایاگیا ہے اور زمین کو ایک اللہ کی بندگی سے آباد کرسکے ؛ لیکن پھر انسان دو گروہوں میں تقسم ہوگئے بعض شاکر ہیں اور بعض کفور(ناشکرے) ہیں،کافروں کے لئے اللہ نے آخرت میں زنجیریں طوق اور شعلوں والی آگ بنارکھی ہے، اور شکر گزاروں کے لئے وہ جام جن میں کافور کی آمیزش ہوگی ،شکر گزاروں کی یہاں تین نشانیاں بیان کی گئی ہیں، ایک یہ کہ وہ جب کوئی نذر مان لیتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں، دوسری یہ کہ وہ قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں ، تیسری یہ کہ وہ محض اللہ کی رضا کے لئے مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں ،ان کے نیک اعمال اور صبر کا نتیجہ انہیں جنت کی صورت میں دیا جائے گا، جہاں نہ گرمی ہوگی نہ سردی، او رنہ کوئی دکھ اور غم ،سورت کے اختتام پر اللہ نے اپنی اس عظیم نعمت کا ذکر فرمایا جس کا کوئی بدل او رکوئی مثال نہیں ،فرمایا (اے محمد) بیشک ہم نے آپ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے ،پس آپ اپنے رب کے حکم پر رہیں،ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کا کہا نہ مانئے، اور اپنے رب کے نام صبح وشام ذکر کیا کریں، اور رات کےو قت اس کے سامنے سجدے کریں اور بہت رات تک اس کی تسبیح کیا کریں ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ داعی کو ذکر وعبات اور صبر لازم ہے؛ تاکہ اللہ کے دشمنوں کے مقابلے میں اسے تقویت قلبی حاصل ہو ،خصوصاً رات کی نماز ایمان کی مضبوطی کا اہم وسیلہ ہے، اس سورت کی آخری آیات میں مشرکین کو سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ ہم اگر چاہیں تو ان کو ختم کرکے ا ن کے عوض ان جیسے اور بھی پیدا کرسکتے ہیں۔
(خلاصہ قرآن