اہلیان شہر کے لیے کراچی کا علاقہ ”گلبہار” تعارف کا محتاج نہیں۔ یہاں کا مخصوص ماحول،علمی پسماندگی اور دین سے دوری کی عمومی فضا سے مرکب ہےشہر کی بیشتر کچی آبادیوں کی طرح معاشرتی خرابیاں یہاں عام ہیں۔اس علاقے میں مدرسہ تعلیمات قرآنیہ آج سے پندرہ برس قبل دیگر عام مکاتب کی طرح ایک چھوٹا سا مکتب تھا تاہم مدرسے کے بانی و مہتمم استاذ محترم حضرت مفتی سعید احمد مدظلہ کے اخلاص و تقویٰ کا اثر ہے کہ من جانب اﷲ اس مکتب کو مقبولیت سے نوازا گیا۔بہت کم عرصے میں اس مدرسے نے ترقی کے کئی مدارج تیزی سے طے کیے۔ قاعدہ و ناظرہ، حفظ قرآن کریم کے شعبہ جات کے بعد شعبہ کتب قائم ہوا۔ آج یہی شعبہ مدرسے کا تعارف بنتا جارہا ہے۔ نو سال قبل شعبہ کتب کے تعلیمی نظم و نسق میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ ان تبدیلیوں کا مقصد مدرسے کی تعلیم کو جدید تقاضوں ضروریات اور معاشرے کے عمومی مزاج سے اس طور پر ہم آہنگ کرنا تھا کہ مدرسے کا مقصد اصلی مزید بہتر طور پر حاصل ہوسکے۔ مدرسے کے نظام تعلیم کے متعلق کچھ عرض کرنے سے قبل یہ تذکرہ بھی اہمیت رکھتا ہے کہ مدرسے کی اپنی کوئی عمارت نہیں ہے کرائے پر حاصل کردہ ایک عمارت کی ایک منزل اور قریبی مسجد زکریا کو مدرسے کی ضروریات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ گلبہار میں گنجان آبادی میں مختصر سے جگہ پر شعبہ کتب کے کم و بیش تین سو طلبہ کو دینی و عصری تعلیم منظم طور پر فراہم کرنا کہ طلبہ دونوں تعلیموں میں معیاری اور مساوی استعداد کے حامل ہوںایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے مدرسے کی انتظامیہ و اساتذہ شب و روز کے ہر لمحے دوچار ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے مدرسے کے شعبہ کتب میں طلبہ کو علوم دینیہ کے ساتھ باقاعدہ طور پر عصری یعنی اسکول و کالج میں پڑھائے جانے والے مضامین کی تعلیم بھی دی جارہی ہے۔ دینی مضامین اور عصری مضامین از ابتدا تا انتہا تمام درجات میں پڑھائے جارہے ہیں۔ البتہ ان مضامین کی تعلیم کے لیے ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جس سے طلبہ پر مضامین کا اضافی بوجھ نہیں پڑتا۔ تقریباً ہر درجے میں 8 سے 9 پیریڈ ہوتے ہیں۔ اگرچہ مضامین کی تعداد متفاوت ہے۔ کسی درجے میں 8 مضامین ہیں تو 12 سے 13 مضامین بھی ہیں۔ محنت اور قابلیت اس نظام تعلیم سے کامیابی سے گزرنے کی لازمی شرائط ہیں۔ مدرسے کا نظام امتحان ایک چھلنی یعنی فلٹر ہے جو محنت سے جی چرانے والے طلبہ کو نکال باہر کرتا ہے۔ ایسے دور میں جبکہ ہمارے طلبہ میں تعلیم سے عدم دلچسپی عام ہوچکی ہے اور نوجوان مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کی بجائے کھیل تماشوں کے اسیر ہوچکے ہیں دینی مدارس کی طرف سے تعلیم کے میدانوں میں انقلابی پیش رفت ایک بہت بڑا اقدام ہے جس کی کامیابی ہمارے روشن مستقبل کی نوید بن سکتی ہے۔
مدرسہ تعلیمات قرآنیہ ایک چھوٹے سے مکتب سے ایک باقاعدہ مدرسے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اب ایک منظم اور مستحکم ادارہ بننے کی جانب رواں دواں ہے۔ ادارے ارتقائی مراحل میں بے شمار تجربات اور مختلف حالات سے گزرتے ہیں۔ ایک انسان کی زندگی کی مانند جو عالم طفولیت سے عالم شباب تک کا سفر نئی نئی منازل سے گزرتے ہوئے طے کرتا ہے۔ اس مدرسے کے طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ کو عام مسلمانوں کے تعاون کی اشد ضرورت ہے اور جیسا کہ عرض کیا اس قسم کے ادارے جو نا مساعد حالات میں کٹھن مراحل سےگزر کر ہمارے مستقبل کی تعمیر و ترقی کے لےے اہم کردار ادا کر رہے ہیں خود ہماری بھی ضرورت ہیں۔ ایسے اداروں کے ساتھ تعاون کرکے ہم نہ صرف اپنی آخرت سنوار سکتے ہیں بلکہ دینوی زندگی میں بھی اطمینان اور مسرت کا سامان کر سکتے ہیں۔ مدرسہ تعلیمات قرآنیہ کے متعلق مزید معلومات، ادارے کے اغراض و مقاصد اور یہاں کے تعلیم معیار کی بابت آئندہ صفحات میں آپ بہت کچھ جان سکیں گے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ ادارہ اس وقت ارتقائی مراحل میں ہے۔ لیکن اس کی تیز رفتار پیش قدمی سے ظاہر ہے کہ یہ آنے والے چند سالوں میں ممکنہ طور پر اپنے عروج کو جا پہنچے گا۔ اسے ہم سب کا تعاون درکار ہے۔ ان شاء اﷲ بہت جلد ہم اس باغیچے کو ایک سرسبز و شاداب مہکتے ہوئے گلشن کی صورت اختیار کرتا دیکھیں گے جہاں نور نبوت کے پر توسے کھلتے پھول ہر سمت مسکرا رہے ہوں گے اور چمنستان علوم قرآن کے نغمہ سرا طیور جا بجا اپنے ترانوں سے حیات تازہ کا سامان کر رہے ہوں گے۔