حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں:
”١٤ اگست کا دن تھا۔ پورا شہر آزادی کی پچاسویں سالگرہ کا جشن منانے میں مصروف نظر آتا تھا، صرف عمارتیں ہی نہیں، کاریں، بسیں اور موٹر سائیکلیں بھی سبز ہلالی پرچم سے سجی ہوئی تھیں۔ میں اس روز دوپہر کو نیشنل اسٹیڈیم کی پچھلی گلی سے گزر رہا تھا جو عموماً سنسان پڑی رہتی ہے۔ پیدل چلتا ہوا کوئی آدمی اکا دکا ہی نظر آتا ہے، البتہ گاڑیاں کسی مختصر راستے کی تلاش میں ادھر سے گزرتی رہتی ہیں۔
جوں ہی میں مرکزی سڑک سے اس گلی میں مڑا تو کچھ فاصلے پر نظر آیا کہ سڑک کے کنارے کوئی پیلی پیلی چیز بکھری ہوئی ہے، پھر اس کے قریب ہی ایک آدمی بھی بیٹھا ہوا نظر آیا اور جب گاڑی قریب پہنچی تو پتہ چلا کہ وہ پیلی پیلی چیز چھولے تھے اور قریب بیٹھا ہوا شخص انہیں سمیٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اندازہ ہوگیا کہ کسی غریب چھولے بیچنے والے کے چھولے زمین پر گر گئے ہیں اور وہ انہیں اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے، جب گاڑی اور قریب پہنچی تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھی نظر آئے۔
میں گاڑی رکوا کر اس کے پاس پہنچا تو وہ پچیس تیس سال کی عمر کا نوجوان تھا جس کے سر سے لے کر پاؤں تک ہر چیز غربت کی داستان سنا رہی تھی اور وہ گرے ہوئے چھولوں کو سمیٹتے ہوئے بلک بلک کر رو رہا تھا۔
میں نے اس کے قریب پہنچ کر ماجرا معلوم کرنا چاہا تو تو شروع میں اس کے منہ سے آواز نہ نکلی، پھر بہ مشکل اس نے یہ الفاظ ادا کیے:
”میں چھولے بیچنے کے لیے جا رہا تھا، ایک اسکوٹر والا پیچھے سے آیا اس نے ٹکر ماردی، میرے سارے چھولے زمین پر گر گئے۔”
میں نے دیکھا کہ اس نے اوپر اوپر کے چھولے تو جوں توں کرکے اٹھا کر اپنی ٹوکری میں رکھ لیے تھےلیکن بقیہ چھولوں کے اٹھاتے وقت وہ یہ تمیز کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ان میں سے کون سے اٹھانے کے قابل ہیں اور کون سے مٹی میں مل جانے کی وجہ سے بیچنے کے لائق نہیں اتنے میں پیچھے ایک اور کار فراٹے بھرتی ہوی آئی اور ان بچے کھچے چھولوں کو روند کر خاک آلود آٹا بناتی ہوئی نکل گئی۔ اس نوجوان کی ہچکیوں میں اور اضافہ ہوگیا۔
وہ کبھی گرے ہوئے چھولوں کو دیکھتا کبھی اپنی ٹوکری کو اور کبھی مجھے،جیسے زبان حال سے کہہ
رہا ہو کہ
”یہ دیکھنے میں تھوڑے سے چھولے ہیں مگر میری تو پوری کائنات تھی جو جشن آزادی میں مست اسکوٹر سوار نے ایک ہی جھٹکے میں مٹی میں ملادی۔ میں نے یہ چھولے تیار کرنے کے لیے نہ جانے کس طرح پیسے مہیا کیے کس طرح انہیں تیار کیا اور کس طرح انہیں سر پر اٹھا کر پیدل فاصلہ طے کیا، تاکہ انہیں بیچ کر شام کو کچھ پیسے گھر لے جا سکوں مگر آن کے آن میں میری پونجی لٹ گئی۔”
فائدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیارے دوستو! کہنے کو یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اس میں ہمارے معاشرے کی انتہائی متضاد (ایک دوسرے کی ضد) تصویر چھپی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ غریب نوجوان کتنا قابل قدر تھا جس نے کسی کے سامنے بھیک مانگنے کے بجائے محنت کرکے چھولے بیچنے کو ترجیح دی لیکن اس کے مقابلے میں اس پیٹ بھرے نوجوان کا تصور کیجئے جو اسکوٹر دوڑاتے ہوئے اس مسکین کی ساری کائنات تباہ کر گیا اور پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا اور اس کار سوار کو دیکھئے جو اس مصیبت زدہ شخص کو دیکھتے ہوئے بھی اس کے گرے ہوئے چھولوں کو روندتا ہوا گزر گیا۔