اسلام میں انسانی ضرورتوں کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔ جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سخت ضرورت اور ابتلائے عام کی صورتوں میں بہت سی ناجائز باتیں بھی جائز ہوجاتی ہیں۔ موبائل فون موجودہ دنیا کی ضروری اشیاء میں داخل ہے۔ ضرورت نہ بھی ہوتی تو اسلام میں موبائل فون رکھنے کی اجازت ہوتی۔ ضرورت کی وجہ سے تو اس کی اجازت میں کوئی شک نہیں رہ جاتا۔ ایک دوسرے سے زبانی یا تحریری گفتگو ہمیشہ سے چلی آرہی ہے، موبائل فون اس کی نئی صورت ہے۔ اس لےے اس کے وہ سب احکام ہوں گے جو پہلے سے زبانی یا تحریری گفتگو کے ہیں۔ بعض مسائل ایسے بھی ہیں جو موبائل فون ہی کا خاصہ ہیں۔ ان تمام احکام و آداب کا جاننا اور ان کا خیال رکھنا ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کالم میں پہلے موبائل پر زبانی گفتگو کے آداب و احکام بیان کیے جائیں گے۔ اس کے بعد تحریری کلام یعنی میسیج کے۔ ملاحظہ کیجےے:۔
موبائل فون پرگفتگو
1۔۔۔۔۔۔ بات شروع کرنے سے پہلے سلام کیجیے!
2۔۔۔۔۔۔ اگر پہلے سے تعارف نہ ہو یا تعارف کے باوجود نہ پہچان رہے ہوں تو تعارف کرائیے!
3۔۔۔۔۔۔ غیر مسلم کو کلمہ احترام سے مخاطب کیجیے، اس کے لیے سلام نہیں۔
4۔۔۔۔۔۔ عورت سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو چونکہ فون بات کرنے میں فتنے کا اندیشہ کم ہوتاہے اس لیے سلام کی گنجائش ہے لیکن احتیاط بہتر ہے۔
5۔۔۔۔۔۔ اگر خودکو ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہ ہو تو خود ہی وضاحت کردینی چاہیے کہ میں فلاں شخص ہوں اور فلاں شخص سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے خطوط مبارکہ میں یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے۔
6۔۔۔۔۔۔ تین بار فون کی گھنٹی جانے کے باوجود اگر فون نہ اٹھایا جائے تو سمجھے کہ اس وقت ملاقات کی اجازت نہیں،لہذا کسی دوسرے وقت رابطہ کی کوشش کرنی چاہیے۔
7۔۔۔۔۔۔ ایسے اوقات میں رابطہ نہ کیجیے جس میں مخاطب کی مشغولیت کا یا آرام کا وقت ہو، مثلاً: نماز کایا دیگر روز مرہ مشاغل کاوقت۔
8۔۔۔۔۔۔ لمبی گفتگو کرنی ہو تو پہلے اجازت لے لیجیے کہ مجھے تھوڑی لمبی بات کرنی ہے (البتہ اگر پہلے سے بات ہوئی ہو کہ فلاں وقت فون پر رابطہ ہوگا، تو یہی اجازت کافی ہے )
9۔۔۔۔۔۔ اگر مخاطب گفتگو کرنے سے معذرت کردے تو اس کو تکبر پر محمول نہیں کرنا چاہیے کہ ہر شخص کے اپنے مشاغل ہوتے ہیں ، اس میں دخل اندازی کسی طرح مناسب نہیں۔
10 ۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم نے ایسی جگہوں پر بلا اجازت آنے کی اجازت دی ہے، جو رہائشی نہ ہوں (النور: 29) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پبلک مقامات جیسے، ائیرپورٹ، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، سرکاری اور نجی اداروں کو ان کے مقرر کردہ اوقات کار میں کسی بھی وقت فون کیا جا سکتا ہے اور ان اداروں سے پیشگی اجازت کے بغیر بھی لمبی بات کرنے کی گنجائش ہے۔
11 ۔۔۔۔۔۔ بلاوجہ فون پر گفتگو کرنے اور جواب دینے سے انکار کرنا بداخلاقی کی بات اور ایک طرح کی حق تلفی ہے۔
12۔۔۔۔۔۔ اسی طرح اپنے ماتحت کو یہ تاکید کرنا، کہ فون ملانے والے سے کہو کہ موجود نہیں یا اور کوئی بہانہ بنانا اور اس طرح موجود رہتے ہوئے بھی موجود نہ رہنے کی اطلاع دینا گناہ ہے، البتہ اگر جان، مال، عزت آبرو کی حفاظت کے لےے جھوٹ بولنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو تو تو ریہ کی گنجائش ہوگی۔
13۔۔۔۔۔۔ بار بار فون کرکے ایک دوسرے کو پریشان کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔
14۔۔۔۔۔۔ آوازوں کو تبدیل کرکے بات کرنا، کسی کو دھمکی دینا، فحش باتیں کرنا گالی گلوچ وغیرہ یہ اخلاقاً بھی نا پسندیدہ اور گناہ کی باتیں ہیں۔
15۔۔۔۔۔۔ فون ایسی ملاقات ہے، جس کی اجرت ادا کرنی پڑتی ہے، اس لیے ضروری بات اور نہایت مختصر بات کیجیے! غیر ضروری باتیں کرنا یا ضروری بات کو ضرورت سے زیادہ بڑھانا اسراف و فضول خرچی ہے جو کہ شریعت کی نگاہ میں بہت بری چیز ہے۔
16۔۔۔۔۔۔متعارف شخص ہویا غیر متعارف ایسی گفتگو کیجیے جس سے مخاطب مانوس ہو خشک اور روکھی گفتگو نہ کیجیے! الا یہ کہ عورت کو غیر محرم سے گفتگو کرنی پڑ جائے تو بات چیت میں لوچ اور حلاوت کا اظہار نہ ہو بلکہ لہجہ سخت ہونا چاہئے۔
17۔۔۔۔۔۔ مسجد میں موبائل فون پر دنیاوی باتیں کرنا، آداب مسجد کے خلاف ہے۔
18۔۔۔۔۔۔ بھری مجلس میں اونچی آواز سے جس سے حاضرین تکلیف محسوس کریں بات نہ کیجیے! بلکہ ایک طرف ہوکر بات کیجیے، اسی طرح سوتے ہوئے کے پاس اونچی آواز سے باتیں کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔
19۔۔۔۔۔۔ آخر میں سلام کرنا چاہیےتاکہ ملاقات کا اختتام سلام پر ہوجائے۔
غرض یہ کہ موبائل فون ایک طرح کی ملاقات ہے، اس لےے بنیادی طور پر جو آداب ملاقات کے ہیں، وہی فون پر گفتگو کرنے کے بھی ہیں۔
موبائل فون پر ایس ایم ایس :
1۔اگر صحیح بات کامیسیج ہو توایس ایم ایس درست ہے خرافات و لغویات سے بھرے ہوئے ایس ایم ایس سے احتراز ضروری ہے۔
2۔بعض لوگ قرآن پاک کی آیتوں کو انگریزی رسم الخط میں ایس ایم ایس کرتے ہیں،یہ درست نہیں،کیونکہ قرآن پاک کو عثمانی رسم الخط کے سواکسی اوررسم الخط میں لکھنا اور اس کو آگے بھیجنا،شائع کرنا ہر گز درست نہیں۔
3۔ اسی طرح احادیث کو بھی اس طرح نہیں لکھنا چاہیے کیونکہ اس میں حدیث غلط پڑھی جاتی ہے البتہ مفہوم لکھ کر بھیجنے کی گنجائش ہے۔
4۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو اگر کسی طرح معلوم ہوجائے کہ یہ حدیث ہے تو وہ تحقیق کےے بغیر دوسرے کو ایس ایم ایس کرکے آخر میں حدیث، یا فرمان نبوی ﷺلکھتا ہے ۔اس میں حددرجہ احتیاط کی ضرورت ہے، جب تک معلوم نہ ہو کہ مستند کتاب کی حدیث ہے اور اس کے متعلق محدثین کا کلام بھی سامنے نہ ہو،اس وقت تک ایس ایم ایس نہ کرنا ہی اولیٰ ہے اوراحتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے۔