سوال: میرا نام فیضان ہے ہم چار بھائی ۔ دو بہنیں اور والدہ ہیں ۔ ہمارے والد صاحب کے انتقال کو اٹھارہ سال ہوچکے ہیں انہوں نے ہمارے لیے ایک مکان چھوڑا ہے 2007 میں ہم چار بھائیوں نے مل کر اس مکان کو بنایا گھر بننے کے کچھ مہینوں بعد فروری 2008 میں بڑے بھائی کی شادی کی جس میں ہم باقی تینوں بھائیوں نے بھی خرچہ کیا شادی سے آٹھ مہینے پہلے ہی سے بڑے بھائی نے تنخواہ دینا بند کردی تھی شادی کے ڈیڑھ سال بعد وہ لڑائی جھگڑا کر کے الگ کرایے پر چلے گئے اور ہم سب سے تعلق ختم کردیا ہے اب وہ بھی ہم سے گھر بنانے کے ساڑھے تین لاکھ روپے مانگ رہے ہیں پیسہ لگاتے وقت انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں قرضہ دے رہا ہوں پہلے وہ کہتے تھے کہ میرے دو لاکھ لگے ہیں اب کہتے ہیں کہ ساڑھے تین لاکھ لگے ہیں ہمارے مطابق صرف دو لاکھ لگائے ہیں مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ گھر کا حصہ الگ دو جبکہ ابھی دو بہنیں اور مجھ سمیت دو بھائی غیر شادی شدہ ہیں اور نہ وہ امں کا حق دیتے ہیں اور نہ بہنوں کا۔ بہنوں کی اور ہماری اپنی شادی کی ذمہ داری ہم تین بھائیوں پر ہے بڑے بھائی نے کہہ دیا ہے کہ میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں ۔
اب آپ بتائیں کہ وہ گھر بنانے کے ساڑھے تین لاکھ اور گھر کا حصہ الگ مانگ رہے ہیں کیا یہ جائز ہے اگر جائز ہے تو ہم کس طرح پورے مکان کی قیمت لگوا کر ان کا حصہ ان کو دیں یا ساڑھے تین لاکھ اور گھر کا حصہ الگ ان الگ دیں ۔
جواب : واضح رہے کہ تقسیم میراث میراث میں تاخیر بہت بڑا گناہ ہے اور خاندانی جھگڑوں کا باعث بھی ، جس کی ایک مثال خود یہ معاملہ ہے ۔ اس گناہ کی تلافی اور تنازع ختم کرنے کا بہترین حل یہی ہے ہے کہ تقسیم میراث میں رکاوٹ بننے والے ورثاء صدق دل سے توبہ واستغفار کریں اور جلد از جلد میراث تقسیم کردیں ! تقسیم میراث کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس مکان کو فروخت کرنے سے جو رقم حاصل ہو اس میں سے پہلے، ہر بھائی کو اتنی رقم دیدی جائے جو اس نے حقیقتاً۔۔۔ تعمیر میں لگائی ہے ۔اس کے بعد بقیہ رقم کے اسی (80)برابر حصے کر کے والدہ کو دس حصے فی بہن کو 7 حصے اور فی بھائی کو چودہ حصے دیدیے جائیں ! فی صد کے اعتبار سے والدہ کا حصہ 12.5/ فی بہن کا حصہ 87.75% اور فی بھائی کا حصہ 17.5% ہوگا ۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بڑے بھائی کو میراث کا بننے والا حصہ اور تعمیر میں لگایا ہوا حصہ دونوں رقم کی صورت میں دیدیے جائیں ۔ا س صورت میں مکان کے اندر بننے والے بڑے بھائی کے تمام تر حصص کے مالک وہ ورثاء / وارث ہوجائیں گے جو اس کو یہ رقم ادا کریں گے ۔ لہذا مکان جب بھی تقسیم ہوگا ان وارثوں کو ان کے بننے والے ذاتی حصص کے ساتھ بٹے بھائی کے حصص بھی دیے جائیں گے۔
جہاں تک تعمیر میں لگائی ہوئی رقم کے کم زیادہ ہونے کا اختلافی مسئلہ ہے تو اس کا شرعی حل یہ ہے کہ بڑا بھائی چونکہ زیادہ رقم کا مدعی ہے اس لیے وہ عدالت یا حکم کے روبرو اپنے دعویٰ کا شرعی ثبوت پیش کرے اگر ثبوت پیش کردے تو اس کا دعویٰ درست ماناجائے گا ، ورنہ دوسرے بھائیوں سے حلف لے کر مدچعی کے خلاف فیصلہ دیدیاجائیگا ۔ عدالت یا حکم کے چکر کاٹنے سے بچنے کے لیے اگر ایک فریق دوسرے کی بات پر بطور صلح آمادہ ہوجائے تو اس طرح بھی یہ اختلاف دور ہوسکتا ہے