فتویٰ نمبر:417
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان، میرے والد نے اپنے انتقال کے وقت ایک مکان جسکا نمبر 26/14 ہے اور یہ فردوس کالونی گلبہار نمبر 1 پر واقع ہے میں اس مکان میں اپنے والد کے انتقال کے بھی پہلے سے رہائش پذیر ہوں اس مکان کا رقبہ تقریبا 1400 اسکوائر گز ہے ۔
والدصاحب کے انتقال کے بعد ورثاء میں میرے دو بھائی اور مجھ سمیت تین بہنیں ہے ان ورثاء میں ایک میری بڑی بہن اور میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوچکا ہے اور انکے بالترتیب بڑی بہن کی ایک بیٹی اور بڑے بھائی کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ۔
مکان میں ایک حصے میں میرے بھائی اپنے بچوں کے ساتھ اور ایک حصے میں مرحوم بھائی کے دونوں بیٹے رہائش پذیر ہیں اور ایک چھوٹے حصے میں میں اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ رہتی ہوں میں چونکہ بیوہ ہوں اور اس جگہ میں میرا گزارا بھی مشکل سے ہوتا ہے اور مزید یہ کہ میرے بھائی جو حیات ہے انہوں نے نے میرے گھر کا پانی بھی تقریبا 22 سال سے بند کیا ہوا ہے اور دوسرے جو اس جگہ رہائش پذیر ہے وہ بھی بہت پریشان ہے اب صورتحال یہ ہے کہ مجھ سمیت سارے ورثاء چاہتے ہیں کہ اس مکان میں جو جس کا جو حق شرعی بنتا ہے وہ اسے دے دیاجائے لیکن بھئای اور انکے بیٹے یہ کہتے ہیں کہ جسکو حصہ چاہئے وہ کورٹ جائے مکان پورا ہمارا ہے تم کو اس میں سے اور کسی کو کچھ نہیں دینگے ۔ لہذا آپ حضرات سے درخواست ہے کہ مندرجہ ذیل وارثوں کیلئے اس مکان میں کتنا حصہ شرع کے مطابق بنتا ہے اسکو واضح فرمادیں عین نوازش ہوگی ۔ یہ مکان میرے والد سید احمد علی ( مرحوم) کا ہے جنکی اولادیں مندرجہ ذیل ہیں ۔
ورثاء
1۔ سید عظمت علی ( حیات ہیں ) ۔
2۔ مکین فاطمہ (حیات ہیں ) ۔
3۔فرزانہ بیگم ( درخواست گزار ) انکے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ۔
4۔ سید حشمت علی ( مرحوم) انکی اولاد انکی بیوی زندہ ہیں ۔
2)بیٹے ، سید منظر علی ، سید انور علی
3) بیٹیاں ،قدسیہ اختر ، نعیم اختر ،شاھین اختر (مرحوم )
5۔ نفسیہ بیگم ( مرحوم ) انکی ایک بیٹی ہے ۔
تنقیح
1۔بڑے بھائی اور بڑے بہن کا انتقال والد مرحوم کے انتقال کے بعد ہوا یا پہلے ؟
2۔سید حشمت علی کی بیوہ اور نفیسسہ بیگم کے شوہر زندہ ہیں ؟
3۔والد مرحوم پر قرض تھا یا انہوں نے کوئی وصیت کی تھی ؟
جواب تنقیح
1۔ ان کا انتقال والد مرحوم کے انتقال کے بہت بعد میں ہوا۔
2۔سید حشمت علی کی بیوہ زندہ ہیں ۔ نفیسہ بیگم کے شوہر وفات پاچکے ہیں ۔
3۔والدپرقرض نہیں تھا۔ وصیت بھی کوئی نہیں کی تھی ۔ اور ان کے کفن دفن کے سب انتظامات چھوٹے بیٹے عظمت علی نے بطور احسان کیے تھے۔
مزید یہ ہے کہ جب میرے والد کا انتقال ہوا تو میرے والد کے پاس دو گاڑیاں موجود تھیں اس میں ایک بڑی گاڑی جنکا نام (میکرو )تھا اور دوسری جسکا نام ( سوزوکی ) ہے اور ایک علاوہ سلائی کے دھاگے کی دو مشینیں بھی موجود تھی اور اسکے علاوہ ایک لاکھ روپے کے قریب کاغذات