آج کل ہمارے معاشرے میں ایک برائی بہت عام ہوگئی ہے اور وہ یہ کہ کسی کی دل آزاری کر کے یہ کہ دیاجاتا ہے کہ ” یہ تو مذاق تھا ” اس گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا ، بلکہ موج مستی اور تفریح طبع شمار کیاجاتا ہے ، حالانکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔
قرآن کریم میں ہے: ” کوئی جماعت کسی کا استہزا( یعنی مذاق) نہ اڑائے شاید وہ اللہ کے نزدیک ان سے بہتر ہوں ” (الحجرات:11)
استہزاء کا مطلب یہ ہے کہ کسی کی اہانت وتحقیر اور اس کے عیب کا اظہار اس طرح کیاجائے جس سے لوگ ہنسیں ۔ اس کی بہت سی صورتیں ہیں : مثلا
1۔ کسی شخص کے چلنے پھرنے یا اٹھنے بیٹھنے یا اس کے کھانے پینے یا ہنس نے بولنے یا اس کی شکل وصورت کی نقلیں اتارنا ۔
2۔اس کی کسی بات یا اس کے کسی کام یا اور کوئی حرکت جوا س سے غلطی سے ہوجائے ، جیسے کسی کی ریح نکل گئی تو اس پر ہنسنا۔
3۔ آنکھوں یا ہاتھ پیر کے اشارہ سے اس کے عیب کا اظہار کرنا ، مثلا ً کسی شخص کا ہاتھ پیدائشی ٹیڑھا ہے تو اس کے ہاتھ کی طرح اپنا ہاتھ ٹیڑھا کرکے لوگوں کو دکھانا بھی استہزاء میں داخل ہے ۔
یہ وہ گناہ ہے جو آج کل مسلمانوں میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ جبکہ قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت میں اس کا حرام ہونا صاف مذکور ہے ۔ قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشاد ہے :
” خرابی ہے ہر اس شخص کے لیے جو لعنت دیتا ہے اور عیب چنتا ہے ۔ ” ( ھمزہ آیت 1)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں : “ایک دفعہ میں نے کسی شخص کی نقل اتاری تو نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا اورا رشاد فرمایا : ” اگر مجھے کسی کی نقل اتارنے پر کوئی بڑی سے بڑی دولت ملے تو بھی میں اس کی نقل نہ اتاروں ۔”
اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ یہ ایک ایسا بے فائدہ گناہ ہے جس میں نہ تو کوئی دنیاوی فائدہ ہے نہ معاشی بلکہ الٹا نقصان ہے ۔ وہ شخص اس وقت تو بہت تو بہت مزے میں ہوتا جس وہ کسی کی نقل اتارتا ہے یا کسی پر ہنستا ہے لیکن اسے یہ نہیں پتا ہوتا کہ اس کے بدلے میں اسے کتنا بڑا گناہ مل رہا ہے اور اگر بالفرض اس میں کوئی فائدہ بھی ہوتا ہے تب بھی اس کے پاس نہیں جانا چاہئے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جو لوگ دوسرے لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں آخرت میں ان کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور اس کی طرف انہیں بلایا جائے گا جب وہ قریب پہنچیں گے تو دروازہ بند کردیاجائے گا ۔ پھر دوسرا دروازہ کھولا جائے گا ، اسی طرح برابر جنت کے دروازے کھولے اور بند کیے جاتے رہیں گے ۔یہاں تک وہ مایوس ہوجائیں گے ،”
ایک شخص کی ریح آواز کے ساتھ نکل گئی ، لوگ ہنسنے لگے تو رسول اللہﷺ نے خطبہ دے کر اس پر تنبیہ فرمائی اور فرمایا: ” جو کام تم خود بھی کرتے ہوں اس پر کیوں ہنستے ہو؟
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو شخص کسی کو اس کے گناہوں پر عار دلائے ( یعنی اس کو شرم یا طعنہ دے کہ تو ایسا ہے ایسا ہے ) تو تو وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب کہ وہ خود اس میں مبتلا نہ ہوجائے ۔”
احمد بن منیع ؒ فرماتے ہیں کہ اس جگہ گناہ سے مراد ایسے گناہ ہیں جس سے توبہ کر لی گئی ہو۔ بعض لوگ ناواقفیت یا غفلت سے استہزا کو مزاح اور خوش طبعی میں داخل سمجھ کر اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ دونوں میں بڑا فرق ہے ۔ مزاح جائز ہے جو آپ ﷺ سے ثابت ہے کہ اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی بات خلاف واقعہ اور جھوٹ زبان سے نہ نکلے اور کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو اور وہ بھی مشغلہ اور عادت نہ بنے ، بلکہ کبھی کبھی اتفاقاً ہوجائے ۔استہزا جس میں مخاطب کی دل آزادی یقینی ہے حرام ہے ۔ اس کو مزاح جائز میں داخل سمجھنا گناہ بھی ہے اور جہالت بھی ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کسی مسلمان بھائی پر ہنسنے ، اس کا مذاق اڑانے اور اس کی نقل اتارنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !!!