مرزا غلام احمد ، مراز غلام احمد مرتضیٰ اور چراغ بی بی کا بیٹا ہے ۔مغل بر لاس قوم سے تعلق ہے۔ آباء اجداد سمر قند سے ہندوستان آئے تھے ، مرزا 1840ء میں بھارت کے مشرقی پنجاب ضلع گورداسپور تحصیل بٹالہ قصبہ قادیان میں پیدا ہوا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے وقت مرزا کی عمر 16 ی ا17 سال تھی ۔
بچپن کا سب سے پسندیدہ مشغلہ چڑیا کا شکار رہا۔ ابتدائی تعلیم مولوی فضل الٰہی اور مولوی فضل احمد سے اور منطق ، نحو اور حکمت کی تعلیم علی شاہ سے حاصل کی ۔ گل علی شاہ کا تعلق شیعہ منسلک سے تھا ۔
جوانی میں مرزا نظام الدین اور کچھ انتہائی بے دین اور دہریہ ذہنیت کے حامل لوگوں سے تعلق رہا ۔ مرزا نے ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کی کچہری میں 1864ء سے 1868ء تک چار سال ملازمت کی۔ اس ملازمت کے دوران ہی مرزا کے تعلقات برطانوی انٹیلی جنس اور یورپین مشنریوں سے استوار ہوئے اور انگریز نے مرزا کو اپنا آلہ کار تجویز کر لیا۔ چنانچہ چار سالہ ملازمت کے بعد مرزا کی جب قادیان واپسی ہوئی تو مسلمانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے شروع میں عیسائیوں اور ہندوؤں سے مناظرے کیے اور پھر 1880ء میں سب سے پہلے ملہم من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ 1882ء میں مامور، نذیر اور مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ۔ 1883ء میں آدم ، مریم اور احمد ہونے کا دعویٰ کیا۔ 1884ء رسالت کا دعویٰ کیا۔ 1891ء پہلے مثیل مسیح اور پھر مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ کیا۔ 1892ء میں کن فیکون ہونے کا ، 1898ء میں امام زمانہ اور مہدی ہونے کا ، 1899ء ظلی بروزی نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر 1901ء مستقل صاحب شریعت ہونے کا دعویٰ کر دیا ۔
مرزا کہنا ہے: بد خیال لوگوں کو اوضح ہو کہ ہمارے صدق وکذب ( سچا اور جھوٹ ا ہونے) کو جانچنے کے لیے ہماری پیشن گوئی سے بڑھ کر کوئی امتحان نہ ہوگا۔”
قارئین ذیل کی پیشن گوئی سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مرزا کتنا جھوٹا تھا۔ مرزا نے دعویٰ کیا : ” احمد بیک نامی شخص کی لڑکی ( محمدی بیگم ) کا نکاح مرزا سے ہونا وحی الٰہی ہے اور اس لڑکی کا نکاح مرزا کے علاوہ کسی اور سے ہوا تو اڑھائی سال میں لڑکی کا شوہر اور تین سال میں لڑکی کا باپ فوت ہوگا” ( مجموعہ اشتہارات 1/ 157تا 159)
اب ہوا یوں کہ احمد بیگ مرزا نے وحی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے محمدی بیگم یعنی اپنی لڑکی کا نکاح اپنے عزیز سلطان محمد ساکن ضلع لاہور سے 7/اپریل 1892ء میں کو کر دیا ، مرزا کے مطابق اس لڑکی کے شوہر کو ڈھائی سال بعد مرنا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے مزید 59 برس کی عمر عطا فرمائی ،یہاں تک کہ مرزا اس جوڑے کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے 26 /مئی 1908ء کو رقابت کی آگ میں جھلستا ہوا دنیا سے رخصت ہوگیا ۔
مرزا نے اپنے ایک خواب کے تذکرے میں بھی اس لڑکی یعنی محمدی بیگم کا ذکر کیا ہے کہ وہ بالکل ننگی اور سر منڈھی تھی ۔
مرزا نے کبھی حج نہیں کیا ، کبھی زکوٰۃ ادا نہیں کی ، کبھی اعتکاف نہیں کیا ،پہلی دفعہ زندگی میں لدھیانوی میں روزہ رکھا تو دل گھٹنے لگا، ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے حالانکہ غروب آفتاب قریب تھا ، مگر اس نے فورا روزہ توڑدیا ، جھوٹا مدعی نبوت ہو کر بھی حفظ قرآن سے محروم تھا ۔ نمازیں جمع کر کے پڑھتا تھا، مرزا ( جھوٹ ا ) مدعی نبوت ہوکر بھی نماز کے مسائل اپنے امتیوں یعنی مولوی نورالدین اور مولوی محمد احسن سے پوچھتا تھا ، مرزا گڑ سے استنجا کرتا تھا اور ڈھیلے کھا لیتا تھا ۔
قادیانیوں کے کافر ہونے کی وجوہات ۔۔۔۔
1)مرزا نے صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔
2)مرزا کہتا ہے ہے کہ قرآن مجید میں محمد رسول اللہ (الآیۃ ) میں محمد سے مراد مرزا ہے۔ یہ سراسر تحریف اور قرآن میں تحریف کرنے والا اسلام میں کافر ہوجاتا ہے۔
3) مرزائی کو آنحضرت ﷺ کی دوسری بعثت کہتے ہیں، یہ تناسخ کا عقیدہ ہے جو کفر ہے ،
4) مرزا تمام مسلمانوں کو کافر کہتا ہے ۔5) غلاما حمد قادیانی نے نبی کریم ﷺ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام کی شان میں گستاخیاں کیں ہیں ۔
6) مرزا کے نزدیک ایک عام آدمی نبی اکرم ﷺ سے بڑا درجہ پاسکتا ہے ۔
7) مرزا نے اسلام کے بنیادی رکن جہاد مقدس کو حرام قراردیا۔
8) مرزا کے نزدیک قادیان حرمین شریف سے افضل ہیں۔
تمام مسلمانوں کے نزدیک مرزا غلام احمد قادیانی ہیں ،اس پر ایمان لانے والے ، اسی طرح ان کی پہلی نسل مرتد ہے ۔ جب کہ اس کے بعد کی نسلیں کافر ہیں ۔ کافروں سے دوستانہ تعلقات رکھنا ، ان کو اپنی لڑکی دینا اورا ہل کتاب کے علاوہ کافروں سے بچی لین ا،ا ن کی نماز جنازہ میں شریک ہونا،ا ن کی قبر پر جانا ، ان کے لیے دعا ئے مغفرت کرنا اور ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا، یہ سب باتیں حرام ہیں۔ مسلمان کے جنازے میں ان کو شرکت کی اجازت نہیں۔ ان کے مسلمان کے درمیان میراث جاری نہیں ہوگی اور مسلمانوں کے لیے ان کا ذبیحہ اور شکار کردہ جانور حلال نہیں ۔ یہ سارے احکام قادیانیوں پر لاگو ہیں ۔
مرزا کا عبرتناک انجام ۔۔
مرزا نے مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ کو کہاتھا کہ اگر تجھ پر طاعون ، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں وارد نہ ہوں تو میں خدا کی طرف سے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا کو اس طرح قبول کیا کہ مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ مرزا کی موت کے بعد تک صحت مند رہے ۔لیکن مرزا ہیضہ، ہسٹریا ، غشی ، دماغی بے ہوشی ، سو سو بار پپیشاب ، دل ودماغ کی سخت کمزوری ، رینگن ، دوران سر، مرگی ، حالت مردمی کالعدم ۔ کمزور حافظہ ، بد ہضمی ، دق ، سل ، مراق تشنج اعصاب ، تشنج دل جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوا۔
25 مئی کی شام سے مرزا کو دست آنے شروع ہوئے ، مرزا کی اہلیہ کہتی ہے : بار بار دستوں کے بعد جب نالکل ہی ضعف ہوگیا تو میں نے چارپائی کے پاس فراغت کا عارضی انتظام کیا۔” کلمہ کی بجائے آخری الفاظ زبان پر یہ جاری ہوئے : ” یہ وبائی ہیضہ ہے ” مقام عبرت ہے کہ نبوت کے اس دعویدار کی موت اس حالت میں ہوئی کہ چار پائی کا کونہ سر میں لگا اور چہرے پر غلاظت سجائے ہوئے واصل نار ہوا۔
ایک گزارش۔۔
آخر میں اپنے بھائیوں سے گزارش ہے کہ آپ قادیانیوں کی مصنوعات کا بائیاکٹ کریں ۔ شیزان جوس اور اس کی تمام پروڈکٹس قادیانی مصنوعات ہیں۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہر تیسرا مسلمان شیزان کی مصنوعات خریدتا ہے۔ جس سے پیارے رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کو معاشی استحکام مل رہا ہے جس کے بل بوتے پر وہ نادار اور مفلس مسلمانوں کو مرتد بنارہے ہیں ۔ تاجر برادری اور دیگر تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قادیانی مصنوعات کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں اور ختم نبوت کے تحفظ ۔ نادار مسلمان بھائیوں کے ایمان کی حفاظت اور غیرت ایمانی کا ثبوت فراہم کریں !