۱۔ ایصال ثواب کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کوئی نیک عمل کرے تو اس پر اجر و ثواب اس کو ملنے والا تھا وہ یہ نیت یا دعا کرلے کہ اس عمل کا ثواب فلاں زندہ یا مرحوم کو عطا کردیا جائے ایصال ثواب کی اس حقیقت کی روشنی میں چند مسائل معلوم ہوئے:
اول… ایصالِ ثواب ایسے عمل کا کیا جا سکتا ہے جس پر انسان کو خود ثواب ملنے کی توقع ہو اور واقع میں نیک عمل ہو۔ اگر عمل کرنے والے کو خود ہی ثواب نہ ملے تو دوسرے کو کیسے عطا کرے گا؟ چنانچہ جو عمل خلافِ شرع اور خلافِ سنت ہو وہ ثواب سے محروم رہتا ہے۔ ایسے عمل کے ذریعے ثواب بخشنا خوش فہمی ہے۔
دوم… ایصالِ ثواب زندہ اور مردوں دونوں کو ہوسکتا ہے۔ مثلاً آپ دو رکعت نماز پڑھ کر اس کا ثواب اپنے والدین کو یا پیرو مرشد کو ان کی زندگی میں بخش سکتے ہیں اور ان کی وفات کے بعد بھی۔ عام رواج مردوں کو ایصال ثواب کا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ زندہ آدمی کے اپنے اعمال کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مرنے کے بعد صدقہ جاریہ کے سوا آدمی کے اپنے اعمال کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اس لیے مرحوم کو ایصالِ ثواب کا محتاج سمجھا جاتا ہے اور ویسے بھی زندوں کی طرف سے مردوں کے لیے اگر کوئی تحفہ ہوسکتا ہے تو وہ ایصالِ ثواب ہی ہے۔
سوم… جس عمل کا ثواب کسی کو بخشنا منظور ہو تو اس کام کے کرنے سے پہلے اس کی نیت کر لی جائے یا عمل کرنے کے بعد دعا کر لی جائے کہ حق تعالیٰ شانہ اس عمل کو قبول فرما کر اس کا ثواب فلاں صاحب کو عطا فرمائیں۔
۲۔ میت کو ثواب صرف نفلی عبادات کا بخشا جا سکتاہے۔ فرائض کا ثواب کسی دوسرے کو بخشنا صحیح نہیں۔
۳۔ جمہور امت کے نزدیک نفلی عبادت کا ثواب بخشنا صحیح ہے۔ مثلا دعا و استغفار، ذکر و تسبیح، درود شریف، تلاوت قرآن مجید، نفلی نماز و روزہ، صدقہ و خیرات، حج و قربانی وغیرہ۔
۴۔ یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ ایصال ثواب کے لیے کوئی چیز صدقہ و خیرات کی جائے وہ بعینہ میت کو پہنچتی ہے بلکہ صدقہ و خیرات کا جو ثواب آپ کو ملنا تھا ایصال ثواب کی صورت میں وہی ثواب میت کو ملتا ہے۔
ایصال ثواب پر ہونے والے اعتراضات اور ان کے جوابات:
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایصال ثواب کا عقیدہ قرآن پاک سے بالکل خلاف ہے۔ قرآن پاک میں صاف طور پر آیا ہے۔ لیس للإنسان إلا ما سعیٰ۔ (اور یہ کہ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس نے کمایا) اور دوسری جگہ ہے۔ ولا تجزون إلا ما کنتم تعملون (اور وہی بدلہ پاؤگے جو کرتے تھے)
اس کا جواب یہ ہے کہ ایصال ثواب قرآن کی کئی آیات سے ثابت ہے۔ مثلا وقل رب ارحمھما کما ر بینیٰ صغراً (اور کہہ اے رب! ان پر رحم کر جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا) اس آیت مبارکہ میں والدین کے لیے دعا کرنے کا حکم ہے چاہے زندہ ہوں یا وفات پا گئے ہون۔ اور ظاہر ہے کہ اس دعا سے ان کو فائدہ بھی پہنچے گا اس لیے کہ قرآن بے فائدہ کام کا حکم نہیں دیتا۔ یہی ایصال ثواب ہے۔ اس میں سعی اور کوشش بیٹے بیٹی کی ہے اور فائدہ والدین کو پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح دیگر کئی آیات سے بھی ایصال ثواب ثابت ہے۔ باقی ہیں وہ آیات جن کو لے کر اعتراض کیا گیا تو اس کا مطلب صاف اور واضح ہے۔ جیسے کوئی شخص پورا مہینہ مزدوری کرے تو اس کی تنخواہ کا حق دار بھی وہی ہوگا اور اسی کی ہی ملکیت ہوگی۔ کوئی اور اس تنخواہ کا حق دار نہیں بن سکتا۔ لیکن اگر وہ خود تنخواہ لے کر کسی محتاج کو صدقہ یا دوست کو ہدیہ کردے تو اب وہ اس کا مالک بن جائے گا۔ اسی طرح کسی انسان کی سعی، کوشش اور محنت کا ثواب اسی کو ملے گا۔ لیکن اگر اس کے بعد وہ یہ بھی سعی کرے کہ اے اﷲ! اس کا جو ثواب مجھے ملا ہے وہ فلاں کو پہنچا دے تو وہ اس کو مل جائے گا۔
یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ ماں، باپ اولاد کی کوشش کا فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ ان کی پیدائش کا سبب ہیں۔ باقی کسی اور کو دوسرے کے عمل کا فائدہ نہیں پہنچتا۔ لہٰذا کسی اور کے لیے ایصال ثواب درست نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن پاک میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعا مذکور ہے۔ رب اغفرلی والوالدی ولمن دخل بیتی مؤمنا و للمؤمنین و المؤمنات (اے رب معاف کر مجھے اور میرے ماں باپ کو اور جو آئے میرے گھر میں ایماندار اور سب ایمان والے مردوں اور عورتوں کو) اس آیت کریمہ میں سب مؤمن مردوں اور عورتوں کے لیے دعا ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے نوح! میں نے تیرے اور تیرے والدین کے حق میں دعا قبول کرلی کیونکہ وہ تیری پیدائش کا سبب ہیں اور با قی مؤمن جو تیرے گھر میں ہیں اور گھر سے باہر کے سب مؤمن مردو اور عورتوں کے لیے تیری دعا بے فائدہ عبثت اور فضول ہیں۔ آئندہ ایسا نہیں کرنا۔ اس لیے کہ تیری کوشش کا فائدہ کسی اور کو پہنچانا میرے قانون کے خلاف ہے۔ بلکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی دعا نقل فرما کر ہمیں دعا کا طریقہ سکھلایا ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں بھی تمام مؤمنین کے لیے دعا ہے۔
ایصال ثواب کی مختلف صورتوں کی تفصیل:
ذخیرہ احادیث میں ایصال ثواب کے مختلف طریقے منقول ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
۱۔ نماز جنازہ:
انسان کی وفات کے بعد سب سے پہلے جس عمل کی ادائیگی ہوتی ہے وہ نماز جنازہ ہے اور نماز جنازہ بھی ایصال ثواب کی ایک صورت ہے اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: إذا صلیتم علی المیت خلصوالہ الدعاء (ابن ماجہ)
’’جب مردہ پر نماز پڑھو تو خلوص کے ساتھ اس کے لیے دعا کرو۔ اسی طرح آپ ﷺ سے کئی دعائیں کتب احادیث میں منقول ہیں جو آپ ﷺ نے جنازوں میں پڑھیں، اس سے مقصود صرف ایصال ثواب ہے۔
چونکہ نماز جنازہ سے میت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اس لیے مؤمن کے بارے میں تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ ہر نیک و بد پر نماز جنازہ پڑھو، مگر کافروں کو ثواب نہیں پہنچتا، اس لیے ان کی نماز جنازہ سے سختی سے منع کردیا گیا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ولا تصل علیٰ أحد منہم مات أبداً ولا تقم علیٰ قبرہ انھم کفروا باﷲ ورسولہ وما توادھم فسقون۔ (اور نماز نہ پڑھ ان میں سے کسی پر جو مر جائے کبھی اور نہ کھڑا ہو اس کی قبر پر۔ وہ منکر ہوئے اﷲ سے اور اس کے رسول سے اور وہ مر گئے نافرمان)
۲۔ قبر پر دعا:
عن عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ قال کان النبی ﷺ إذا فرغ من دفن المیت فقال استغفر وألا خیکم واسئلوالہ التبثیت فإنہ الأن یسئل۔‘‘ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب مردہ کے دفن سے فارغ ہوتے تو فرماتے اپنے بھائی کے لیے بخشش مانگو اور اس کی ثابت قدمی کی دعا کرو۔ کیونکہ اب اس سے سوال ہورہا ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کو دفنانے کے بعد اس کے لیے استغفار کرنا اور بخشش طلب کرنا چاہیے۔ اور یہ بھی ایصال ثواب ہے۔ اور زندوں کو سعی و کوشش ہے جس سے مردوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے نیز اس میں یہ بھی قید نہیں کہ صرف بیٹا دعا کرے اور کوئی نہ کرے۔
زیارت قبور:
زیارت قبول مسنون ہے اور زیارت کے وقت بھی مردہ کے لیے دعا کرنا مسنون ہے۔ یہ دعا بھی ایصال ثواب ہی ہے۔ اس میں بھی یہ کوئی تخصیص نہیں کہ صرف بیٹا ہی دعا مانگے باقی دعا نہ مانگیں۔ مسلم شریف میں دعا کے الفاظ یہ ہیں: السلام علیکم أھل الدیار من المؤمنین والمسلمین وانا إن شاء اﷲ بکم لا حقون نسأل اﷲ لنا ولکم العافیۃ (سلام ہو تو پر اے ان گھروں والے مؤمنو اور مسلمانو! اور ہم بھی ان شاء اﷲ تم سے ضرور ملنے والے ہیں۔ ہم اپنے اور تمہارے لیے اﷲ تعالیٰ سے عافیت کی دعا کرتے ہیں‘‘۔
۴۔ صدقات: عن عائشہ رضی اﷲ عنھا أن رجلاً اتی النبی ﷺ فقال یا رسول اﷲ ان امی افتتلت نفسھا ولم تومن وأظنھا لو تکلمت تصدقت أفلھا أجر إن تصدقت عنھا؟ قال نعم (بخاری ص ۳۸۶)
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس کی والدہ اچانک فوت ہوگئی اور اس نے کوئی وصیت نہ کی اورمیرا گمان ہے اگر وہ بات کرتی تو صدقہ کرتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو اس کا ثواب پہنچے گا؟ فرمایا ہاں۔‘‘
اسی طرح کی ایک حدیث مسلم اور مسند احمد میں بھی مذکور ہے، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر میت کی طرف سے صدقہ کیا جائے تو اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔
۵۔ حج:
عن ابن عباس رضی اﷲ عنھا ان امراۃ من جھینۃ جاء ت الی النبی ﷺ فقالت إن أمی نذرت أن تحج فلم تحج حتی ما تت أفاحج عنھا؟ قال جحی عنھا۔ (بخاری ج ۱ ص ۲۵۰) ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ قبیلہ جہنہ کی ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی، اور وہ منت پوری کرنے سے پہلے فوت ہوگئیں کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ فرمایا اس کی طرف سے حج کر۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کی طرف سے حج کرکے اس کو اس کا ثواب پہنچانا صحیح ہے اور یہ ایصال ثواب ہے۔
۶۔ تلاوت قرآن:
عن ابی ہریرہ رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ ﷺ من داخل المقابر ثم قرأ فاتحۃ الکتاب وقل ھو اﷲ أحد و الٰھکم التاکثر ثم قال اللھم إنی جعلت ثواب ہذا ما قرأت لأ ھل المقابر من المؤمنین والمؤمنات کانوا شفعاء لہ إلی اﷲ تعالیٰ۔ (شرح الصدور للسوطحا، ص ۱۳۵)
’’حضرت ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو قبرستان میں داخل ہوکر سورۃ فاتحہ، سورۃ اخلاص اور سورۃ التکاثر پڑھے۔ پھر کہے اے اﷲ میں نے جو تیرا کلام پڑھا اس کا ثواب اس قبرستان کے مؤمن مردوں اور عورتوں کو بخشتا ہوں تو وہ سب اس کی شفاعت کریں گے۔
عن أنس رضی اﷲ عنہ أن رسول اﷲ ﷺ قال من دخل المقابر فقرأ سورۃ یٰسین خفف اﷲ عنھم وکان لہٗ بعدد من فیھا حسنات۔ (شرح الصدور للسوطحا ص ۱۳۵) حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو قبرستان میں داخل ہوا اور اس نے سورت یٰسین کی تلاوت کی، مردوں سے اﷲ تعالیٰ عذاب ہلکا فرما دیں گے اور اس پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر نیکیاں ملیں گی۔
حماد مکی کا بیان ہے کہ میں ایک رات مکہ کے ایک قبرستان میں گیا۔ میں ایک قبر پر سر رکھ سو گیا میں نے دیکھا کہ قبرستان والے مختلف ٹولیوں میں بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا قیامت قائم ہوگئی؟ انہوں نے کہا نہیں۔ ہمارے ایک بھائی نے ’’قل ھو اﷲ أحد‘‘ پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخشا تھا اور ہم ایک سال سے وہ ثواب تقسیم کر رہے ہیں۔
مندرجہ بالا امام سیوطی رحمہ اﷲ نے شرح الصدور میں نقل فرمائی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ان روایات میں اگرچہ ضعف ہے لیکن ان کا مجموعہ اس بات پر دلیل ہے کہ ان کی اصل ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعے بھی ایصال ثواب کیا جا سکتاہے۔
قربانی:
امام ابوداؤد نے ابوداؤد شریف میں ایک باب باندھا ہے‘‘ باب الأضحیۃ عن المیت‘‘ یعنی میت کی طرف سے قربانی کرنا اور اس میں حدیث ذکر کی ہے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہ حضرت ﷺ کے وصال کے بعد ہر سال دو دنبے قربانی کیا کرتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اکرم ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے قربانی کرکے ایصالِ ثواب کیا جا سکتا ہے۔
خلاصہ کلام:
خلاصہ یہ ہے کہ مطلق ایصال ثواب کا اہل سنت و الجماعت میں سے کوئی منکر نہیں۔ معتزلہ جیسا بدعتی فرقہ اس کا منکر رہا ہے۔ اہل سنت کا مسلک نہایت واضح ہے کہ ایصالِ ثواب درست اور جائز ہے، خواہ بدنی عبادت کا ہو یا مالی عبادت کا۔
البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ شریعت کے موافق ہو۔ شریعت کا مزاج او ذوق یہ ہے کہ فرائض میں اعلان و اجتماع ضروری ہے اور نوافل میں انفرادیت اور اخفاء محبوب و مطلوب ہے۔ مثلاً فرض نماز باقاعدہ اذان و اقامت کے ساتھ با جماعت ادا کرنے کی تاکید ہے، مگر نوافل اور سنن اگر مسجد کے بجائے گھر میں پڑھی جائیں تو زیادہ محبوب ہیں۔ اسی طرح ایک ایصال ثواب تو فرض کفایہ ہے اور وہ ہے نماز جنازہ۔ یہ باجماعت ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ساری عمر ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس میں اجتماع اور اعلان شریعت کے مخالف ہے۔ اس کے لیے دن مقرر کرنا، اعلان کرکے لوگوں کو جمع کرنا اور اجتماعی رنگ دینا، یہ شریعت کے مزاج کے خلاف ہے اور خصوصاً احناف کے ہاں یہ بدعت ہے اور بدعت سے بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
اسی طرح ایک اور احتیاط بھی بہت اہم ہے کہ اگر ایصال ثواب کرنے والا اپنی ملکیت سے کر رہا ہے تو خیر، لیکن اگر میت کے ترکہ سے ترکہ تقسیم کیے بغیر کر رہا ہے تو سب وارثوں کا رضا مند ہونا ضروری ہے۔ ان میں سے کوئی وارث غائب یا نا بالغ نہ ہو ورنہ بجائے ثواب کے گناہ ہوگا۔ اس لیے میت کا مال پہلے شرعی طریقے سے کیا جائے۔ پھر اپنے حصہ میں سے ایصالِ ثواب کیا جائے۔