یہ سورت مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں،اور بیشتر مفسرین کی رائے میں جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی ،یہ وہ وقت تھا جب عرب کے کفار مدینہ منورہ کی ابھرتی ہوئی اسلامی حکومت کو کسی نہ کسی طرح زیر کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے ،اور اس پر حملے کرنے کی تیاریاں کررہے تھے، اس لئے اس سورت میں بنیادی طور پر جہاد وقتال کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں ،او رجو لوگ اللہ تعالی کے دین کا کلمہ بلند رکھنے کے لئے جہاد کرتے ہیں ،ان کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، مدینہ منورہ میں ایک بڑی تعداد ان منافقوں کی تھی جو زبان سے تو اسلام لے آئے تھے، لیکن دل سے وہ کافر تھے، ایسے لوگوں کے سامنے جب جہاد اور لڑائی کی بات کی جاتی تو اپنی بزدلی اور دل کے کھوٹ کی وجہ سے لڑائی سے بچنے کے بہانے تلاش کرتے تھے ،اس سورت میں ان کی مذمت کرکے ان کا بُرا انجام بتایاگیا ہے ،جنگ کے دوران جو قیدی گرفتار ہوں ان کے احکام بھی ا س سورت میں بیان ہوئے ہیں
* چونکہ اس سورت کی دوسری ہی آیت میں حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام لیاگیا ہے ا س لئے اس کا نام سورۂ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے، چونکہ اس میں جہاد وقتال کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں اس لئے اس کو سورۂ قتال بھی کہاجاتا ہے