٭ بچے کے دماغ کی مثالیں پریس جیسی ہے ۔ اس کے سامنے جو حرکت کی جاتی ہے وہ اس کے دماغ میں نقش ہوجاتی ہے ۔ پھر جب اس کو عقل آتی ہے تو وہی نقوش اس کے سامنے آجاتے ہیں اور وہ وہی کام کرنے لگتا ہے جو اس کے دماغ میں پہلے سے نقش تھے۔اس لیے بچے کے سامنے نازیبا حرکات سے خود کو بچائیں ! ( ٹی وی فلمیں دیکھنے ،گانے وغیرہ سننے سے بالکل پر ہیز کریں ) ورنہ اس کے اثرات بچہ پر پڑسکتے ہیں ۔
٭ چار پانچ سال کی عمر میں بچے کے اندر اچھی یا بری عادتیں پختہ ہوجاتی ہیں ۔ ماہرین کے بقول بچے کے 80 فیصد شخصیت اس عمر میں بن چکی ہوتی ہے ۔ اطباء ان سالوں کو ” تکوینی سال” یعنی بننے کے سال کو کہتے ہیں ۔ اس لیے ابتدائی چار پانچ سال بچوں کے انتہائی نگہداشت کے ہیں ۔
٭ بچوں کوا وپر اچھالنے اور کھڑکی وغیرہ سے لٹکانے سے بچنا چاہئے ۔ خدا نخواستہ ایسا نہ ہو کہ بچہ ہاتھ سے چھوٹ جائے ۔ اسی طرح ان کے پیچھے دوڑنا بھی نہیں چاہئے ایسا نہ ہو کہ بچہ گر پڑے اور چوٹ وغیرہ لگ جائے ۔
٭بچوں میں فطری طور پر شرمیلا پن ہوتا ہے ۔ اس کی عادات چار مہینے کی عمر سے شروع ہوجاتی ہے اورا یک سال کی عمر مکمل ہونے کے بعد شرمانے کی عادت مکمل طور پر نظر آنے لگتی ہے ۔ بعض بچوں میں یہ مرض مورثی ہوتا ہے اورر بعض بچوں پر گھر کے ماحول کا اثر پڑتا ہے ۔ا س مرض کا علاج یہ ہے کہ بچے کو دوسروں سے ملنے جلنے کی عادات ڈالی جائے ۔ خود بھی اس کو اس کے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں اور محلے کے بچوں سے ملائیں اور اس کو بھی نرمی سے سمجھائیں کہ چھوٹوں بڑوں سے ملا کرے ۔
٭بچوں میں خوف اور ڈر ہونا اس حد تک تو ایک اچھی بات ہے کہ اس کی وجہ سے وہ بہت سارے حادثات سے محفوظ رہتے ہیں ۔ لیکن خوف میں حد سے زیادہ تجاوز بچوں میں نفسیاتی بے چینی پیدا کردیتا ہے ۔ اس لیے بچے میں اگر بہت زیادہ خوف ہو تو اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت زیادہ ڈرنے کا سبب عموما یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو بھوت،چڑیل ، جنات ، ڈاکو، پولیس وغیرہ سے ڈرایا جاتا ہے یا بچہ گوشہ نشینی اور لوگوں سے میل جول نہ رکھنے کی عادت رکھتا ہے ۔ اس مرض کا علاج یہ ہے کہ بچے کو لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے ،ملنے جلنے کی عادت ڈالی جائے ، اس کو بھوت، جنات وغیرہ سے نہ ڈرایا جائے ، اس کی عمر کے مطابق اس پر مختلف کاموں کی ذمہ داریاں ڈالی جائیں تاکہ اس کا خوف وحجاب دور ہو نیز وہ جس چیز سے ڈرتا ہو اس کے سامنے اس کا تعارف کرایا جائے ، مثلا ً: بچہ اگر اندھیرے سے ڈرتا ہو تےو الدین ہنسی مزاح میں تھوڑی دیر کے لیے بتی بھجادیں وغیرہ ۔ غزوات وسرایا اور مسلم سپہ سالار وں کی بہادری کے واقعات بھی اس کے لیے مجرب ہیں ۔
٭حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: “اپنی اولاد کو نماز کی تاکید شروع کردو جب وہ سات سال کے ہوجائیں ۔” اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سات سال سے پہلے بچے پر نمازروزے کا باقاعدہ بوجھ ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔اسی وجہ سے فقہائے کرام نے کہا ہے کہ سات سال سے کم عمر کے بچے کو مسجد میں لانا درست نہیں۔ البتہ نماز اور مسجد سے تھوڑا مانوس کرنے کے لیے کبھی کبھار اس شرط کے ساتھ لاسکتے ہیں کہ بچہ مسجد میں گندگی وغیرہ نہیں کرے گا ۔
٭بچوں پر سات سال سے پہلے تعلیم کا باقاعدہ بوجھ ڈالنا بھی مناسب نہیں۔اس سے بچے کی نشوونما رک جاتی ہے۔بچوں کو تعلیم دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب بچہ تین سال کا ہوجائے تو اس کو گھر میں کھیل کود کے اندر ہی دین کی کچھ باتوں وغیرہ کی تعلیم دے دی جائے ۔نماز کی سورتیں اور دعائیں زبانی یاد کروائی جائیں۔ سات سال پہلے نرسری وغیرہ بھیج کر ضابطے کا طالب علم بنادینا اچھا نہیں ۔
٭جب بچہ 10 سال کا ہوجائے تو اس وقت آپ ﷺنے نہ صرف بچے کو تادیبا ًمارنے کی اجازت دی ہے بلکہ حکم دیا ہے کہ بچہ نماز نہ پڑھے تو اس کو مارو۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب مار، ناگزیر ہوجائے تو ضرورت کے تحت استاد کے لیے ماں باپ کے لیے بچے کو اس حد تک مارنا اجئز ہے جس سے بچے کے جسم پر مار کے نشان نہ پڑیں ،بچے کو اس طرح نہ ماریں کہ زخم ہوجائے یا نشان پڑجائے ۔ آج کل اس میں افراط وتفریط ہے کہ اگر ماریں گے تو اس حد سے گزرجائیں گے یا پھر بعض لوگ بچوں کو مارنے کے بالکل قائل نہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بچے کو کبھی مارنا چاہیے۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ وہ افراط ہے اور یہ تفریط ہے۔اعتدال کا راستہ وہ ہے جو نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا۔
٭ بچہ جب پڑھنے کے قابل ہوجائے تو اس کو کسی ایسے مکتب میں داخل کرائیں جس کا استاد شفیق اور دین دار ہو۔ سب سے پہلے بچے کو قرآن شریف پڑھائیں اگر بچے کا حافظہ اجازت دی تو حفظ کرانا افضل ہے ورنہ ناظرہ قرآن شریف پڑھائیں مگر صحیح قرآن شریف پڑھنے والے سے پڑھوائیں جو تجوید اور درست ادائیگی سے بچے کو قرآن پڑھائے ۔اگر قرآن حفظ کرانا شروع کیا ہے تو قرآن پورا ہونے کے بعد اور ناظرہ پڑھوایا تو نصف قرآن کے بعد وقت نکال کر کر یہ اسباق شروع کرادیں :
1)ابتدائی ریاضی 2)لکھنے کی مشق 3)کسی دینی کتاب کی تعلیم
اگرا للہ تعالیٰ نے وسعت دی ہو تو بچہ کو عالم بنائیں کیونکہ زمانے میں اس کی بڑی سخت ضرورت ہے،ورنہ بچے کو کوئی حلال اور پاکیزہ پیشہ سکھادیں تا کہ بچہ مستقبل میں پریشانی سے ہمیشہ محفوظ رہے ۔
٭جب بچہ سمجھدار ہوجائے تو اس کی علماء اور بزرگوں کی مجلسوں میں اپنے ساتھ لے جایا کریں کیونکہ ان حضرات کی صحبت اور توجہ کی برکت ، دین میں پختگی کا ذریعہ ہے۔
٭بچے کو بہت جلدی مت سونے دیں اور جلدی جاگنے کی عادت ڈالیں ۔
٭بچوں کو ایسی کتابیں لاکر مت دیں جن میں عشقیہ ناول، عاشقی معشوقی کی باتیں ،شریعت کے خلاف مضمون یا بیہودہ قصت اشعار ہوں بلکہ ایسی کتابیں دیں جن میں دین کی باتیں اور دنیا کی ضروری باتیں لکھی ہوں ۔
٭مدرسے یا اسکول سے آنے کے بعد دل بہلانے کے لیے بچے کو کھیلنے کی اجازت دیں تاکہ اس کی طبیعت اکتا نہ جائے ۔بچے کو کھیلنے سے روکنا بہت تعلیمی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے ۔