٭ مشہور ہے کہ ولدالزنا کا ذبیحہ درست نہیں۔ یہ خیال محض لغو اور باطل ہے۔
٭ بعض عوام یہ سمجھتے ہیں کہ بکراعید کے روز قربانی کرنے تک روزہ سے رہنا چاہیے اور قربانی کے گوشت سے افطاری کرنی چاہیے ۔ یہ بھی بے اصل خیال ہے یہ ضرور ہے کہ اپنی قربانی کے گوشت سے کھانے کی ابتدا مستحب ہے، لیکن یہ روزہ ہر گز نہیں نہ اس میں روزہ کا ثواب ہے اور نہ روزہ کی اس میں نیت ہے۔
٭ بعض لوگ خصی جانور کی قربانی درست نہیں سمجھتے حالانکہ اس کی قربانی تو اور زیادہ افضل ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے خصی دنبہ کی قربانی فرمائی ہے۔
٭ عوام میں یہ مشہور ہے کہ ذبح کرنے والے کے ساتھ جانور پکڑنے والے اور امداد کرنے والے پر بھی ”بسم اﷲ اﷲ اکبر” کہنا واجب ہے۔ اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ صرف ذبح کرنے والے پر واجب ہے البتہ اگر چھری دو آدمی اکٹھے پھیریں یا ذبح ہونے سے پہلے دوسرا آدمی چھری پھیرے تو دونوں پر بسم اﷲ پڑھنا واجب ہے۔
٭ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر گوشت میں ہڈی نہ ہو تو وہ گوشت مکروہ ہوجاتا ہے۔ یہ بھی بے حقیقت اور غلط خیال ہے۔
٭ بعض قصائی ذبح کرتے وقت حرام مغز یعنی وہ سفید غدود جو گردن کی ہڈی کے اندر ہوتا ہے کاٹ ڈالتے ہیں، حالانکہ جن رگوں کا کاٹنا ضروری ہے، وہ پہلے کٹ چکی ہوتی ہے یہ بھی غلط ہے اور ایسا کرنا مکروہ ہے۔
٭ اسی طرح بعض قصائی ذبح کرتے وقت گردن توڑ دیتے ہیں یہ بھی ٹھیک نہیں ہے، اس سے جانور کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔
٭ بعض قصائی جانور کو ٹھنڈا کرنے کے لیے چھری سینے کی طرف مارتے ہیں اس سے بھی جانور کو تکلیف ہوتی ہےیہ بھی مکروہ ہے۔
٭ بعض لوگ اپنی قربانی کے جانور کی چربی یا اس کی ہڈیاں بیچ دیا کرتے ہیں یہ بھی درست نہیں انہیں اپنے ذاتی استعمال میں تو لا سکتے ہیں، لیکن بیچ نہیں سکتے اگر بیچ دی تو اس کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے۔