خالق ارض و سما نے بعض عبادات واجبہ کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ انہیں مقررہ اوقات پر ادا کیا جائے’ جب کہ اس کے علاوہ بعض ایسی عبادات بھی ہیں’ جن کی ادائیگی بلاتمیز (تعین اوقات) ہر حال میں مفید اور نفع بخش ہوتی ہے’ چنانچہ نماز’ روزہ اور حج ایسی عبادات کے زمرے میں آتے ہیں’ جن کی ادائیگی کا تعلق ایک مخصوص وقت سے ہے’ اور ایسے ہی قربانی جیسے شعائر (اسلام) کا بھی ایک وقت مقرر ہے اور وہ ہے دس ذی الحجہ اور اس کے بعد دو دن۔
قربانی صرف خیرالامم (اُمت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ قرآن مجید اور احادیث نبویؐ کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ امم سابقہ بھی اس ”خیر موضوع” سے برابر کی مستفید ہوتی رہیں’ یہ اور بات ہے کہ طریقہ کار اور ادائیگی کی صورت کچھ اس سے مختلف تھی’ مگر اتنی بات تو پایہئ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا انتہائی مستند اور مفید ذریعہ ہے خواہ وہ ذبیحہ ہو یا کوئی اور چیز’ چنانچہ عربی لغت کی مشہور اور معتبر کتاب ”المنجد” (طبع بیروت) کے صفحہ ٦١٧ پر قربانی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
”ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لےے پیش کیا جائے’ خواہ وہ ذبیحہ ہو یا غیر ذبیحہ ”قربان” (یعنی قربانی) کہلاتا ہے۔”
نیز اس سلسلہ میں علامہ فریدو جدی لکھتے ہیں:”اصطلاح دین میں ”قربان” (قربانی) ان اشیاء اور حیوانات کو کہتے ہیں جنہیں انسان اللہ تعالیٰ کے تقرب کی غرض سے خرچ کرے۔” (دائرۃ المعارف ص ٧٣٦ ج٧)
اور قرآن مجید میں بھی ایک مقام پر آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل کی قربانی کا تذکرہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”جب (ہابیل اور قابیل نے) قربانی دی’ پس ایک کی قبول ہوگئی دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔” (سورئہ مائدہ)
اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آدمؑ کی شریعت میں بھی قرب الٰہی کا معیاریہی تھا’ مگر اس کی صورت کچھ مختلف تھی (بارگاہ الٰہی میں مقبول قربانی کو آگ کھاجاتی تھی) جب کہ جدالانبیأ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی بارگاہ الٰہی میں تقرب حاصل کرنے کے لیے اپنے لخت جگر کی قربانی پیش کی’ جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں قبول فرمانے کے بعد ”وفد یناہ بذبح عظیم” کی عظیم بشارت سے سرفراز کیا اور یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اس کو برقرار رکھ چھوڑا، یہاں تک کہ سیّد البشر سرور کونین (ﷺ) کو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کیا’ چنانچہ ارشاد ہے :” فصل لربک وانحر” (سو نماز پڑھ اپنے رب کے آگے اور قربانی کر) اس پر ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ : ”تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے نماز عید اور قربانی مراد ہے۔”
(مرقاۃ ص٢٦٢ج٢)
یعنی نبی کریم ﷺکو (شکرانہ کے طور پر) نماز کے بعد دوسری تمام عبادات سے زیادہ قربانی کی تاکید فرمائی گئی ہے’ کیونکہ تقرب الٰہی کے حصول کے لےے عبادات بدنیہ میں سے نماز اور عبادات مالیہ میں سے قربانی کو جو امتیازی مقام حاصل ہے وہ دوسروں کو نہیں،کیونکہ قربانی کی اصل حقیقت جان کا قربان کرنا تھا اور جانور کی قربانی کو بعض حکمتوں اور مصلحتوں کی بنا پر اس کے قائم مقام کردیا گیا’
چنانچہ حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺسے بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے (روحانی اور نسلی) باپ ابراہیم ؑکی سنت ہے’ پھر انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہمارےلیے ان میں کیا اجر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ (قربانی کے جانور کے) ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے’ پھر انہوں نے عرض کیا: اون کا بھی یہی حساب ہے؟ آپﷺنے فرمایا: ہاں! اون والے جانور کی قربانی کا اجر بھی اسی شرح سے ملے گا کہ ہر بال کے عوض ایک نیکی۔ (کنزالعمال ص٢٢٩ ج٥’ مشکوٰۃ ص١٢٩ج١’ مسند احمد’ ابن ماجہ)