شعب الایمان کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
’’ رجب میں ایک رات ہے کہ ا س میں نیک عمل کرنے والے کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے ۔ جو اس میں بارہ رکعت پڑھے ، ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور کوئی ایک سورت اور ہر دو رکعت پر التحیات اور آخر میں سلا م پھیرنے کے بعدسو بار سبحان اللہ والحمدللہ و لاالہ الا اللہ واللہ اکبر ،سو بار درود پاک پڑھے اور اپنی دنیا و آخرت سے جس چیز کی چاہے دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالی اس کی سب دعائیں قبول فرمائے گا سوائے اس دعا کے جو گناہ کیلئے ہو ۔ ‘‘
اس کی سند میں محمد بن فضل نامی راوی ہے ،جس کی ائمہ و محدثین رحمہم اللہ نے تکذیب کی ہے ۔
محدثین رحمہم اللہ کے حدیث میں اس راوی کی حیثیت کے حوالے سے اقوال و فرامین:
امام احمدفرماتے ہیں:اس کی حدیث جھوٹوں والی ہے ۔
امام یحی فرماتے ہیں:اس کی حدیث کو لکھا نہیں جائے گا۔
الفلاس کہتے ہیں: یہ کذاب راوی ہے ۔
امام ابن ابی شیبہ:نے بھی اسے کذاب قرار دیا ہے ۔
کئی ایک محدثین رحمہم اللہ نے اسے متروک کہا ہے ۔
حوالہ جات کے لئے دیکھئے:
[الجرح و التعدیل:8/56،الضعفاء:4/120،الکامل:6/170،المیزان:6/4،تقریب التہذیب:2/208]
تنزیہ الشریعہ کے حوالےسے روایت نقل کی :
’’حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جو رجب کی ستائیس کا روزہ رکھے اللہ تعالی اس کیلئے ساٹھ مہینوں (پانچ سال ) کے روزوں کا ثواب لکھے گا اور یہ وہ دن ہے جس میں جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ و اٰلہ وسلم کیلئے پیغمبری لے کر نازل ہوئے ۔‘‘(کفن کی واپسی :18)
تبصرہ:
اولاً :یہ روایت موقوف ہے(یعنی یہ رسولﷺ کا فرمان نہیں ہے بلکہ صحابی رضی اللہ عنہ کا قول ہے) ۔
ثانیاً :اس میں شھر بن حوشب نامی راوی اگرچہ صدوق ،حسن الحدیث ہےمگر کثیر الارسال ،والاوھام بھی ہے ۔ اسی طرح شھر بن حوشب سے روایت کرنے والا راوی مطر بن طھمان بھی صدوق ہے ،مگر کثیر الخطاء ہے۔ ابن سعدکہتے ہیں : یہ حدیث میں ضعیف ہے ۔یحی بن سعید، مطر الوراق کی برے حافظے میں ابن ابی لیلی سے تشبیہ دیتے تھے ۔امام ابو زرعہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کو صالح اس انداز میں کہا کہ گویا کہ ان کو لین الحدیث کہہ رہے ہو۔
امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ میرے نزدیک حجت نہیں اور جب یہ کسی حدیث میں اختلاف کرے تو قابلِ حجت نہیں۔
امام نسائی فرماتے ہیں: قوی نہیں ہے ۔
امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیالیکن فرمایا یہ کبھی کبھی خطا کرتا ہے ۔
امام عجلی فرماتے ہیں کہ: یہ صدوق ہے ۔
ابن عدی نے اسے ضعفاء میں لاکر اس کی احادیث کی مثالیں دیں اور فرمایا :اس راوی کے ضعف کے باوجو داس کی احادیث کو جمع کیا جائے گا ،اور لکھا جائے گا ۔
امام دارقطنی کہتے ہیں :یہ قوی نہیں ہے ۔امام الساجی کہتے ہیں : صدوق ہے، وہم کرتا ہے ۔
حافظ امام ابن حجرفرماتے ہیں: صدوق ہے اور بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا ہے ۔اور اس کی حدیث عطا بن ابی رباح سے ضعیف ہے ۔
حوالہ جات کے لئے دیکھئے:[تہذیب الکمال :5994،طبقات ابن سعد :،تاريخ الكبير: 7/1752،ضعفاء النسائی : 567 ،ضعفاء العقيلی :213، الجرح والتعديل: 8 /1319 ،الكامل لابن عدی: 3 /140 ،ثقات ابن حبان:435/5، سير أعلام النبلاء:5/ ،452ميزان الاعتدال: 4/ 8587 )]
معلوم ہوا کہ یہ اگرچہ صدوق راوی ہے اور اس کی روایت متابعت وغیرہ میں چل سکتی ہے مگر ساتھ ہی یہ کثیر الخطا بھی ہے ۔
لہذا یہاں ان دونوں راویوں سے خطاء و وہم ہوا ہے اس لئے کہ اولاًیہ صحیح روایات کے خلاف ہے ،ثانیا ًاس روایت کے مقابلے میں انہی سے مروی ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہی ایک اور روایت بھی ہے جس میں ہے کہ اٹھارہ ذوالحجہ کا روزہ ساٹھ مہینوں کے اجر کے برابر ہے ۔(دیکھئے :تاریخ دمشق :8/290)
اس روایت کو بھی کثیر علماء نے ضعیف قرار دے رکھا ہے ۔نیز امام ذھبی نے اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :ھذا حدیث منکر جدا ، بل کذب ، فقد ثبت فی الصحیح ما معناہ : ان صیام شھر رمضان بعشرۃ اشھر ، فکیف یکون صیام یوم واحد یعدل ستین شھرا ؟ ھذا باطل ۔۔۔ (انسان العیون للحلبی: باب حجۃ الوداع ،385/3، کشف الخفاء : حرف المیم ، 2/307،)
یعنی : یہ حدیث بہت زیادہ منکر ہے بلکہ جھوٹ ہے ،جبکہ صحیح روایت میں تو یہ ہے کہ رمضان کا روزہ دس مہینوں کے برابر ہے بھلا کیسے یہ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک روزہ 60 مہینوں کے روزوں کے برابر ہو۔یہ خبر باطل ہے ۔
تنبیہ : اگرچہ رمضان کے بارے میں یہ روایت بھی ہمیں نہیں ملی، البتہ یہاں تک تو بات مسلم ہے کہ رمضان کی عبادت کا مقام سب سے اعلی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ مذکورہ روایت کو بھی کئی ایک علماء نے ضعیف قرار دے رکھا ہے ،مثلاً:
قال ابو الخطاب :ھذا حدیث لا یصح (کتاب الباعث لابی شامۃ ) یعنی :یہ حدیث صحیح نہیں ۔
ثالثاً: موصوف نے تنزیہ الشریعہ کا حوالہ دیا ہے، حالانکہ علماء و طلباء بخوبی جانتے ہیں کہ اس کتاب کا موضوع ہی من گھڑت اور معلول روایات کی نشاندہی ہے ، ستائیس رجب کو مجھے نبوت عطا ہوئی جو اس دن کا روزہ رکھے اور افطار کے وقت دعا کرے دس برس کے گناہوں کا کفارہ ہو ۔‘‘
قابلِ تعجب بات یہ ہے کہ خود احمد رضا صاحب نے اس کے متعلق لکھا ہے ،’’اسنادہ منکر‘‘ یعنی اس کی سند منکر ہے ۔(فتاوی رضویہ :حوالہ مذکورہ )ا ب اندازہ لگائیے اس روایت کے منکر ہونے کو احمد رضا خان بھی مان رہے ہیں اور واضح طور پہ لکھ بھی رہے ہیں مگر موصوف نہ جانے کیوں احمد رضا صاحب کے یہ الفاظ کھاگئے.
منقول