سوال: یزید کے بارے میں ہمیں کیا عقیدہ رکھنا چاہیے؟
جواب: یزید کے بارے میں خاموشی بہتر ہے، یہی اکثر اکابر علما کا موقف ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کے درمیان جو جنگ ہوئی اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور یزید کا موقف بالکل غلط تھا.
چنانچہ اس معاملے میں سکوت کے حوالے سے امداد الفتاوی میں ہے:
“پس توسط اس میں یہ ہے کہ اس کے حال کو مفوض بعلم الٰہی کرے اور خود اپنی زبان سے کچھ نہ کہے لأن فیہ خطر اور اگر کوئی اس کی نسبت کچھ کہے تو اس سے کچھ تعرض نہ کرے”۔
(امداد الفتاوی : 5/426 طبع دارالعلوم کراچی)
فتاوی رشیدیہ میں ہے:
” یزید مومن تھا، بسبب قتل کے فاسق ہوا ، کفر کا حال معلوم نہیں، کافر کہنا جائز نہیں کہ وہ عقیدہ قلب پر موقوف ہے”۔ (فتاوی رشیدیہ:ص 38)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
” ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے، کیوں کہ اگر لعنت جائز ہے تو نہ کرنے میں حرج نہیں ؛ اس لیے کہ لعنت نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت نہ مستحب ،محض مباح ہے”۔ (ص: 39)
تاہم بعض سلف صالحین اسی طرح ہمارے بعض اکابر سے یزید پر لعنت کرنا بھی ثابت ہے.
علامہ بجیرمی شافعی لکھتے ہیں :
” چنانچہ یزید پر اشارتاً اور واضح طور پر لعنت کرنے کے متعلق امام احمد کے اقوال موجود ہیں اور یہی صورت حال حال امام مالک اور ابو حنیفہ کی بھی ہے اور ہمارے امام شافعی کا مذہب بھی یہی ہے اور البکری کا قول بھی یہی ہے۔ البکری کے بعض پیروکاروں نے کہا ہے کہ اللہ یزید اور اس کے لشکر کی رسوائی میں اضافہ کرے اور اسے جہنم کے نچلے ترین درجہ پر رکھے۔”
(البجيرمي، تحفة الحبيب على شرح الخطيب ج12 ص369،)
ابن خلکان کہتے ہیں :
” رہاسلف کا قول اس پر لعنت کے بارے میں تو امام احمد رحمہ اللہ کے اس بارے میں دو قول ہیں۔ ایک میں اس کے ملعون ہونے کی طرف اشارہ ہے دوسرے میں اس کی تصریح ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کے بھی دو قول ہیں ایک میں اس پر لعنت کا اشارہ اور دوسرے میں تصریح ہے۔ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بھی اس کے بارے میں دو قول ہیں۔ ایک میں اس پر لعنت کا اشارہ ہے اور دوسرے میں یزید پر لعنت کی تصریح ہے۔ اور ہمارا تو بس ایک ہی قول ہے جس میں اس پر لعنت کی تصریح ہے، اشارہ کنایہ کی بات نہیں اور وہ کیوں ملعون نہ ہو گا حالانکہ وہ نرد کھیلتا تھا، چیتوں سے کھیلا کرتا تھا۔ شراب کا رسیا تھا، شراب کے بارے میں اس کے اشعار سب کو معلوم ہیں۔”
(ابن خلكان، وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، 3/ 287)
یزید کے بارے میں مولانا قاسم نانوتوی اور متعدد اکابر کا موقف انتہائی سخت تھا جیسا کہ قاضی اطہر مبارکپوری نے اپنی کتاب علی و حسین میں لکھا ہے. بعض اکابر نے یزید پلید کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں ۔
یزید کے بارے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” الناس فی یزید طرفان ووسط،قوم یعتقدوں انہ کافر منافق فی الباطن…وکلا القولین باطل یعلم بطلانہ کل عاقل،فان الرجل ملک من ملوک المسلمین وخلیفہ من الخلفاء الملوک کا ھذا ۔” (منہاج السنۃ للعلامۃ ابن تیمیۃ رحمہ: ج 2 ص 321 طبع مکتبہ الریاض الحدیث، ریاض)
یعنی یزید کو خلفائے راشدین میں سے سمجھنا بھی غلط ہے اور اسے کافر، منافق قرار دینا بھی صحیح نہیں. اہل حق کا مسلک اس افراط و تفریط کے درمیان ہے.
ہمیں بھی اس اعتدال پر قائم رہنا چاہیے اور اس قسم کی فضول بحثوں میں نزاع وجدال یا اپنی عمر کے اوقات صرف کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ہر شخص کو اپنے ایمان اور عمل صالح کی فکر کرنی چاہیے۔ نیز یزید کے صالح یا فاسق ہونے کی تحقیق شرعاً کچھ ضروری نہیں اور نہ آخرت میں اس کے بارے میں سوال ہوگا. قرآن کریم کا ارشاد ہے :
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۚ-لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْۚ-وَ لَا تُسْــٴَـلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠(البقرة:141)
ترجمہ: وہ ایک امت تھی جو گذر گئی ۔ جو کچھ انہوں نے کمایا وہ ان کا ہے اور جو کچھ تم نے کمایا وہ تمہارا ہے اور تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا عمل کرتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : “مِنْ حٌسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَالَا يَعْنِيْهِ ” (ترمذی:2317)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اورفضول باتوں کوچھوڑ دے۔
لہذا اس طرح کی فضول بحثوں سے اجتناب کرنا چاہیے اور اسے ایمان وکفر کا معیار نہیں بنانا چاہیے.
واللہ تعالی اعلم بالصواب