سوال: اگر نماز کے لیے کھڑے ہوں اور شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو جبکہ اوپر بڑا جبہ پہنا ہو جو قدموں تک پہنچتا ہو تو کیا اس طرح نماز ہو جائے گی یا شلوار نیچے کرنی ضروری ہے جبکہ جبے سے ٹخنے چھپ جاتے ہوں تو کیا نماز درست ہو جائے گی؟
الجواب باسم ملهم الصواب
سوال میں مذکور تفصیل کے مطابق مذکورہ لباس سے چونکہ مکمل بدن چھپ جاتا ہے،لہذا اگر سر بھی مکمل ڈھانپا ہو تو نماز ہو جائے گی۔
**************************
حوالہ جات:
1..’’وبدن الحرة عورة إلا وجهها وکفیها وقدمیها۔ (البحر الرائق: 448/1)
2.. ینظر الرجل من محرمہ (ہی من لایحل لہ نکاحها ابداً بنسب أو سبب) إلی الرأس والوجه والصدر والساق والعضد إن امن شهوتہ وشهوتها أیضاً وإلا لا، لاإلی الظهر والبطن والفخذ (الدر المختار مع الرد المحتار: 9/ 524_528)
3.. “واعلم أن هذا التفصيل في الإنكشاف الحادث في أثناء الصلاة، أما المقارن لإبتدائها فإنه يمنع إنعقادها مطلقا اتفاقاً بعد أن يكون المكشوف ربع العضو”. (فتاوی شامی :408/1)
4.. “ستر العورة شرط لصحة الصلاة إذا قدر عليه كذا في محيط السرخسي. العورة للرجل من تحت السرة حتي تجاوز ركبتيه…بدن الحرة عورة إلا وجهها و كفيها و قدميها كذا في المتون…قليل الإنكشاف عفو؛ لأن فيه بلوي، و لا بلوي في الكثير، فلايجعل عفواً، الربع و ما فوقه كثير و ما دون الربع قليل، وهو الصحيح، هكذا في المحيط”. (فتاوی ہندیہ ، 58/1)
4.. نماز کے صحیح ہونے کے لئے کسی خاص وضع کا لباس شرط نہیں ہے۔بلکہ ہر اس لباس میں نماز ہو جاتی ہے، جس سے ستر عورت پورا ہو جاتا ہو۔البتہ جو پاجامہ ٹخنے سے نیچے لٹکا ہوا ہو یا ایسا لباس ہو جس میں غیر مسلم قوم کی مشابہت ہے تو اس کے ساتھ نماز مکروہ ہے۔ ( فتاوی عثمانی:373/1)
🔸واللہ سبحانہ اعلم🔸
■ 5 جمادی الآخر 1444ھ
■ 29 دسمبر، 2022ء
Load/Hide Comments