قربانی کے اسباق
دوسرا سبق:
قربانی کس پرواجب ہے؟
(مفتی) محمدانس عبدالرحیم
دارالافتاء جامعۃ السعیدکراچی پاکستان
💢پہلےقربانی کے کچھ فضائل اور قربانی نہ کرنے پر کیا وبال آیا ہے یہ سمجھ لیں، پھر آگے بات بڑھاتے ہیں!
قربانی کے فضائل:
دواحادیث ہیں ،انہیں ٹکڑوں کی صورت میں بیان کیاجارہا ہے ؛تاکہ ہر نکتے کی اہمیت واضح ہو:
٭ دس ذوالحجہ کے دن، جانور کا خون بہانے سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے ہاں بندے کا کوئی عمل بہتر نہیں ہوتا۔
٭ قربانی کے جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت آئیں گے۔
٭ خون کے زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ کے ہاں اس کا ایک مقام ہوتا ہے۔
٭ اس لیے قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔
(سنن ابن ماجہ، سنن ترمذی، وقال: حسن غریب)
ایک اورحدیث میں ارشاد نبوی ﷺ ہے:
٭ قربانی تمہارے جدامجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے…
٭ قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے۔
(سنن ابن ماجہ، سنن ترمذی)
قربانی نہ کرنے کا وبال:
ارشاد نبوی ﷺہے: ’’جس کے پاس گنجائش ہو (یعنی قربانی کا نصاب ہو) اور پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘ (الترغیب والترہیب: ۲/۱۰۰)
اس حدیث کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کے قائل ہوئے کہ قربانی سنت ہی نہیں واجب بھی ہے۔دلائل اور محاکمہ عربی عبارت میں ملاحظہ فرمائیے!
المبسوط للسرخسي (12/ 8)
وَحُجَّتُنَا فِي ذَلِكَ قَوْله تَعَالَى {فَصَلِّ لِرَبِّك وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] أَيْ وَانْحَرْ الْأُضْحِيَّةَ وَالْأَمْرُ يَقْتَضِي الْوُجُوبَ.
وَقَالَ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «مَنْ وَجَدَ سَعَةً وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا» وَإِلْحَاقُ الْوَعِيدِ لَا يَكُونُ إلَّا بِتَرْكِ الْوَاجِبِ. وَقَالَ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «مَنْ ضَحَّى قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيُعِدْ وَمَنْ لَمْ يُضَحِّ فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ تَعَالَى» وَالْأَمْرُ يُفِيدُ الْوُجُوبَ، وَفِي قَوْلِهِ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – ضَحُّوا أَمْرٌ وَقَوْلُهُ فَإِنَّهَا سُنَّةُ أَبِيكُمْ إبْرَاهِيمَ أَيْ طَرِيقَتُهُ فَالسُّنَّةُ الطَّرِيقَةُ فِي الدِّينِ، وَذَلِكَ لَا يَنْفِي الْوُجُوبَ، وَلَا حُجَّةَ فِي قَوْلِهِ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – وَلَمْ تُكْتَبْ عَلَيْكُمْ فَإِنَّا نَقُولُ بِأَنَّهَا غَيْرُ مَكْتُوبَةٍ بَلْ هِيَ وَاجِبَةٌ فَالْمَكْتُوبُ مَا يَكُونُ فَرْضًا يَكْفُرُ جَاحِدُهُ فَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخْصُوصًا بِكَوْنِ الْأُضْحِيَّةِ مَكْتُوبَةً عَلَيْهِ كَمَا قَالَ.
وَتَأْوِيلُ حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – أَنَّهُمَا لَا يُضَحِّيَانِ فِي حَالِ الْإِعْسَارِ مَخَافَةَ أَنْ يَرَاهَا النَّاسُ وَاجِبَةً عَلَى الْمُعْسِرِينَ، أَوْ فِي حَالِ السَّفَرِ وَهُوَ تَأْوِيلُ حَدِيثِ أَبِي مَسْعُودٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ –
قربانی کس پر واجب ہے؟
جو شخص درج ذیل کوائف کا حامل ہو اس پر قربانی واجب ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کم ہو تو قربانی واجب نہ ہوگی:
(۱) وہ مسلمان ہو، غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں۔
(۲) وہ عاقل ہو، پاگل پر قربانی واجب نہیں۔
(۳) وہ بالغ ہو، نابالغ پر قربانی واجب نہیں۔
(۴) وہ مقیم ہو ، شرعی مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
(۵) قربانی کے ایام(یعنی دس ذوالحجہ کی صبح صادق سے بارہ ذوالحجہ کی مغرب تک کے عرصے) میں اس کے پاس قرضوں کو الگ کرنے کے بعد 613 گرام چاندی کی مالیت کے برابر اثاثے مہیا ہوں۔ دلائل اور محاکمہ عربی عبارت میں ملاحظہ فرمائیے!
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 64)
وَمِنْهَا الْغِنَى لِمَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلْيُضَحِّ» شَرَطَ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – السَّعَةَ وَهِيَ الْغِنَى وَلِأَنَّا أَوْجَبْنَاهَا بِمُطْلَقِ الْمَالِ وَمِنْ الْجَائِزِ أَنْ يَسْتَغْرِقَ الْوَاجِبُ جَمِيعَ مَالِهِ فَيُؤَدِّي إلَى الْحَرَجِ فَلَا بُدَّ مِنْ اعْتِبَارِ الْغِنَى وَهُوَ أَنْ يَكُونَ فِي مِلْكِهِ مِائَتَا دِرْهَمٍ أَوْ عِشْرُونَ دِينَارًا أَوْ شَيْءٌ تَبْلُغُ قِيمَتُهُ ذَلِكَ سِوَى مَسْكَنِهِ وَمَا يَتَأَثَّثُ بِهِ وَكِسْوَتِهِ وَخَادِمِهِ وَفَرَسِهِ وَسِلَاحِهِ وَمَا لَا يَسْتَغْنِي عَنْهُ وَهُوَ نِصَابُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ، وَقَدْ ذَكَرْنَاهُ وَمَا يَتَّصِلُ بِهِ مِنْ الْمَسَائِلِ فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ.
وَلَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ بِحَيْثُ لَوْ صَرَفَ إلَيْهِ بَعْضَ نِصَابِهِ لَا يَنْقُصُ نِصَابُهُ لَا تَجِبُ لِأَنَّ الدَّيْنَ يَمْنَعُ وُجُوبَ الزَّكَاةِ فَلَأَنْ يَمْنَعَ وُجُوبَ الْأُضْحِيَّةَ أَوْلَى؛ لِأَنَّ الزَّكَاةَ فَرْضٌ وَالْأُضْحِيَّةَ وَاجِبَةٌ وَالْفَرْضُ فَوْقَ الْوَاجِبِ.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 65)
وَأَمَّا وَقْتُ الْوُجُوبِ فَأَيَّامُ النَّحْرِ فَلَا تَجِبُ قَبْلَ دُخُولِ الْوَقْتِ؛ لِأَنَّ الْوَاجِبَاتِ الْمُؤَقَّتَةَ لَا تَجِبُ قَبْلَ أَوْقَاتِهَا كَالصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَنَحْوِهِمَا، وَأَيَّامُ النَّحْرِ ثَلَاثَةٌ: يَوْمُ الْأَضْحَى – وَهُوَ الْيَوْمُ الْعَاشِرُ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ – وَالْحَادِيَ عَشَرَ، وَالثَّانِيَ عَشَرَ وَذَلِكَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ مِنْ الْيَوْمِ الْأَوَّلِ إلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ مِنْ الثَّانِي عَشَرَ، وَقَالَ الشَّافِعِيُّ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: أَيَّامُ النَّحْرِ أَرْبَعَةُ أَيَّامٍ؛ الْعَاشِرُ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ وَالْحَادِيَ عَشَرَ، وَالثَّانِيَ عَشَرَ، وَالثَّالِثَ عَشَرَ، وَالصَّحِيحُ قَوْلُنَا لِمَا رُوِيَ عَنْ سَيِّدِنَا عُمَرَ وَسَيِّدِنَا عَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ سَيِّدِنَا عُمَرَ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ – أَنَّهُمْ قَالُوا: أَيَّامُ النَّحْرِ ثَلَاثَةٌ أَوَّلُهَا أَفْضَلُهَا، وَالظَّاهِرُ أَنَّهُمْ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لِأَنَّ أَوْقَاتَ الْعِبَادَاتِ وَالْقُرُبَاتِ لَا تُعْرَفُ إلَّا بِالسَّمْعِ
قربانی پانچ قسم کی چیزوں سے واجب ہوتی ہے:
(۱) سونا
(۲) چاندی
(۳) نقدی
(۴) مال تجارت
(۵) روزمرہ استعمال سے زائد سامان (بدائع،احسن الفتاوی)
حساب کرنے کا طریقہ:
آپ پر قربانی واجب ہے یا نہیں ؟ اس کا حساب کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ
1۔ مارکیٹ سے ساڑھے باون تولہ چاندی کے ریٹ عید کے دنوں میں معلوم کریں اور اسے نوٹ کرلیں!
2۔ پھر ایک صفحے پر سونا ،چاندی، نقدی، مال تجارت، ضرورت سے زائد سامان ، ان پانچ چیزوں میں سے جو جو چیزیں آپ کے پاس آپ کی ذاتی ملکیت کی ہوں اس کی موجودہ مارکیٹ ویلیو لکھیں اور مجموعہ نکال لیں! آسانی کی خاطر اس کو آپ قابل قربانی اموال کہہ سکتے ہیں۔
یاد رکھیے! قربانی، زکوۃ، حج ان سب میں اشیاکی قیمتِ خرید کا نہیں، قیمت فروخت کا اعتبارہوتا ہے۔
3۔ آپ کے ذمے کسی طرح کے قرضے ہوں ، مثلا: ٹیکسز، یوٹیلیٹی بلز، لیا ہوا قرضہ،ملازمین کی تنخواہیں، چیز خریدی ہو اور اس کی پیمنٹ ادا نہ کی ہو،وغیرہ۔ یہ سب چیزیں لکھ کر ان کا مجموعہ نکال لیں!
4۔ پھر قرضوں کو قابل قربانی اموال کے مجموعے سے مائنس کریں!
5۔ قرضوں کو مائنس کرنے کے بعد بھی اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ رقم بنتی ہو تو قربانی آپ پر واجب ہے،اس سے کم ہے تو قربانی واجب نہیں۔ (بدائع)
قربانی واجب ہونے کاصحیح مطلب:
یادرکھیے! قربانی کا مطلب یہ نہیں کہ پوری گائے خریدی جائے، بلکہ گائے کا ایک حصہ بھی واجب ادا کرنے کے لیے کافی ہے۔وقف قربانی سستی ہوتی ہے اس میں ایک حصے کے پیسے ملادینا کافی ہے۔چترال ،گلگت اور وہ علاقےجہاں ایک حصہ بہت کم قیمت میں مل جاتا ہے وہاں کسی قابل اعتماد ادارے میں رقم بھیج کر قربانی کرنا درست ہے۔باہرممالک جہاں قربانی کے جانور میسر نہیں یا بہت زیادہ مہنگے ہیں وہ کسی سستے ملک میں قربانی کے حصے کی رقم بھیج کر قربانی کروالیں یہ بھی درست ہے۔