عوامی مقامات پر نماز پڑھنا

سوال:شاپگنز مال یا اور دوسری جگہوں پر نماز پڑھنے کی جگہ بنی ہوتی ہے وہاں مرد عورتیں اکٹھے نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں کیا اس طرح ان جگہوں پر عورتوں کی نماز ہو جاتی ہے ؟

الجواب باسم ملہم الصواب

واضح رہے کہ احادیث مبارکہ کی رو سے خواتین کے لیے ایسی جگہ نماز پڑھنا زیادہ باعثِ ثواب جو مکمل پوشیدہ ہو،اس لیے اگر مذکورہ صورت میں گھر واپس آنے تک نماز قضا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ کہ گھر میں نماز پڑھے۔تاہم اگر نماز قضا ہونے کا امکان ہوتو پھر
شاپنگز مال اور عوامی مقامات
میں بھی نماز ہو جاتی ہے، لیکن کچھ امور کا خیال رکھ لیا جائے ۔

1۔خواتین اپنے لیے مخصوص جگہ میں نماز ادا کریں جہاں مردوں کی آمد و رفت نہ ہو، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر چہرے کے پردے کے ساتھ نماز ادا کرے۔
2۔عورتیں نماز پڑھتے وقت مردوں کے برابر نہ کھڑی ہوں بلکہ پیچھے ہوں۔

___________

حوالہ جات :۔
حدیث مبارکہ :۔
1۔ام حمید ساعدیۃ انھا جاءت الی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقالت یا رسول اللہ انی احب الصلوٰة معك فقال صلی اللہ علیه وسلم قد علمت وصلوتك فی بیتك خیرلك من صلوٰتك فی حجرتك وصلوٰتك فی دارك خیرلك من صلوٰتك فی مسجد قومك وصلوٰتك فی مسجد قومك خیر لك من صلوتك فی مسجدی قال فامرت فبنی لها مسجدا فی اقصی شئی من بیتہا اظلمة فکانت تصلی فی فیه حتی لقیت اللہ عزوجل)

(الترغیب والترھیب ، 338)

ترجمہ:حضرت امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا شوق بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھری میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کوٹھری کی نماز گھر کے احاطے کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطے کی نماز محلے کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد کی نماز سے بہتر ہے۔
چناں چہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کمرے کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا۔

___________

کتب فقہ :-

1۔قال الإمام محمد الشیباني عن أپی حنیفة عن حماد عن إبراہیم لا بأس بأن یغطي الرجل رأسہ في الصلاة ما لم یغط فاہ ویکرہ أن یغطي فاہ، قال محمد: وبہ نأخذ ونکرہ أیضًا أن یغطي أنفہ وہو قول أبی حنیفة رحمہ اللہ، قال أبو الوفا الأفغاني: أخرج الإمام أبو یوسف في آثارہ عن أبي حنیفة عن حماد عن إبراہیم أنہ کان یکرہ أن یغطي الرجل فاہ وہو في السلاة، ویکرہ أن تصلي المرأة وہي متنقبة – وفي تخریج الإحیاء للعراقي حدیث النھی عن التلعثم في الصلاة من حدیث أبي ہریرة بسند حسن نہی أن یغطي الرجل فاہ رواہ الحاکم وصحّحہ
(کتاب الآثار مع حاشیة: 414,415/1، باب القہقہة في الصلاة وما یکرہ فیہا)

2۔وقال الحصکفي وتمنع المرأة الشابة من کشف الوجہ بین الرجال لا لأنہ عورة؛ بل لخوف الفتنة ۔ قال ابن عابدین والمعنی: تمنع من الکشف لخوف أن یری الرجال وجہہا فتقع الفتنة ؛ لأنہ مع الکشف قد یقع النظر إلیہ بشہوة۔۔۔

(الدر المختار مع رد المحتا: 22,23/2، کتاب الصلاة في ستر العورة)

3۔ومحاذاة المشتهاة” بساقها وكعبها في الأصح ولو محرمًا له أو زوجة اشتهت ولو ماضيًا كعجوز شوهاء في أداء ركن عند محمد أو قدره عند أبي يوسف ”في صلاة“ ولو بالإيماء”مطلقة“ فلا تبطل صلاة الجنازة إذ لا سجود لها ”مشتركة تحريمة“ باقتدائهما بإمام أو اقتدائها به  “في مكان متحد” ولو حكما بقيامها على ما دون قامة “بلا حائل” قدر ذراع أو فرجة تسع رجلا ولم يشر إليها لتتأخر عنه فإن لم تتأخر بإشارته فسدت صلاتها لا صلاته ولا يكلف بالتقدم عنها لكراهته ”و“ تاسع شروط المحاذاة المفسدة أن يكون الإمام قد “نوى إمامتها” فإن لم ينوها لاتكون في الصلاة فانتفت المحاذاة“۔
(حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح 329، باب مایفسد الصلاة)

واللہ اعلم بالصواب
7دسمبر 2023
22 جمادی الاول 1445

اپنا تبصرہ بھیجیں