سورہ کہف میں اصحاب کہف کا واقعہ

اصحاب کہف کاواقعہ
یہ کچھ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والےنواجوان تھے جو ایک مشرک بادشاہ کےعہد حکومت میں دین عیسائیت کے قائل ہوگئےتھے، اس وقت تک عیسائیت میں تحریف نہیں ہوئی تھی ۔بادشاہ نے ان کوبھرے دربار میں توحیدکااعلان کرنے پر قید میں ڈال دیا۔یہ حضرات کسی طرح قید سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور شہر سے نکل کر “رقیم” نامی ایک غار میں چھپ گئے ۔
ان کے ساتھ ایک چرواہا بھی راستے میں شامل ہوگیا تھا، اس کاکتا غارکی چوکھٹ پر پاؤں پھیلائے حفاظت کی خاطر بیٹھ گیااور یہ حضرات تھکے ہارے دعائیں کرتے ہوئے آرام کے لیے لیٹ گئے ۔ان کی دعا یہ تھی:رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا [الكهف: 10]
وہاں اللہ تعالیٰ نے ان پر گہری نیند طاری فرمادی ا ور یہ حضرات تین سونوسال تک اسی غار میں سوتے رہے ۔
ا للہ تعالیٰ نے ا س نیند کے دوران اپنی قدرت کاملہ سے ان کی زندگی کوبھی سلامت رکھا ا وران کے جسم بھی گلنے سڑنےسے محفوظ رہے ۔ تین سونوسال بعد ان کی آنکھ کھلی توانہیں اندازہ نہیں تھاکہ وہ اتنی لمبی مدت تک سوتے رہے ہیں ۔ جب ان کوبھوک محسوس ہوئی تو ایک رفیق کار کوکچھ کھاناخرید کرلانےکےلیے شہر بھیجا،اوریہ ہدایت کی کہ احتیاط کے ساتھ شہر جائیں؛تاکہ ظالم بادشاہ کوپتہ نہ چل سکے ۔
اس تین سوسال کے عرصہ میں وہ ظالم مشرک بادشاہ مرکھپ گیاتھااورایک نیک صحیح العقیدہ عیسائی شخص بادشاہ بن چکاتھا۔ عیسائیت کوغالب آئے ہوئے ایک عرصہ بیت چکاتھا بلکہ عیسائیت میں نت نئے فتنے بالخصوص حیات بعد الممات کے حوالے سے شکوک وشبہات جنم لینے لگے تھے۔اللہ تعالی کی منشایہ تھی خود اصحاب کہف کو بھی اپنی قدرت کی نشانی دکھائیں اور اس زمانے کے منکرین کے سامنے ان کو بیدار کرکےحیات بعدالممات کی ایک زندہ مثال بھی قائم کردی جائے تاکہ لوگوں میں پھیلنے والے یہ شبہات ختم ہوسکیں۔
یہ صاحب جب شہرمیں پہنچے توکھاناخریدنےکےلیے وہی پراناسکہ پیش کیاجوتین سوسال پہلےا س ملک میں چلاکرتاتھا۔دکان دار نے وہ پرانا سکہ دیکھاتواس نے پولیس کوبلالیا کہ اس کے پاس پراناخزانہ ہے ۔ تحقیقات کی گئیں تویہ بات سامنے آئی کہ یہ حضرات صدیوں تک سوتے رہےتھے۔
بادشاہ کوپتاچلاتو وہ بڑے ا کرام کےساتھ شہر سے باہر نکل کر ان کے پاس ملاقات کے لیے گیا۔ ان حضرات کوپہلے یہ گمان ہوا کہ ہم گرفتار کرلیے گئے ہیں، لیکن جب اپنی عزت افزائی دیکھی اورماحول کابدلاؤ محسوس کیا توباہر نکل کران سے ملاقات کی اورپھر واپس اندر جاکر اللہ تعالی کے حضور سجدہ شکرادا کیااور اسی حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کی یادگار میں ایک مسجدتعمیرکی گئی ۔
حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اپنی شہرۂ آفاق تفسیر ”آسان ترجمۂ قرآن“ میں لکھتے ہیں:
“عیسائیوں کے یہاں یہ واقعہ” سات سونے والوں “کے نام سے مشہورہے ۔ معروف مؤرخ ایڈورڈگبن نے اپنی مشہورکتاب ”زوال وسقوط سلطنت روم “ میں بیان کیاہے کہ وہ ظالم بادشاہ ڈوسیس تھاجوحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں پر ظلم ڈھانے میں بہت مشہور ہے۔اور یہ واقعہ ترکی کے شہر افسس میں پیش آیاتھا۔اورجس بادشاہ کے زمانے میں یہ حضرات بیدار ہوئے ”گبن“ کے بیان کےمطابق وہ تھوڈوسیس تھا۔
مسلمان مؤرخین اورمفسرین نے بھی اس سے ملتی جلتی تفصیلات بیان فرمائی ہیں اور وہ ظالم بادشاہ کانام دقیانوس ذکر کیاہے ۔
ہمارے دورکےبعض محققین کاکہناہے کہ یہ واقعہ اردن کے شہر عمان کے قریب پیش آیا تھاجیاں ایک غارمیں کچھ لاشیں اب تک موجودہیں ۔یہ تحقیق میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب “جہاں دیدہ ” میں بیان کردی ہے ،لیکن ان میں سے کوئی بات بھی اتنی مستندنہیں ہے کہ اس پر بھروسہ کیاجاسکے۔قرآن کریم کااسلوب یہ ہے کہ وہ کسی واقعے کی اتنی ہی تفصیل بیان فرماتاہے جوفائدہ مند ہو،اس سےزیادہ تفصیلات میں پڑنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
ان حضرات کو”اصحاب الکہف “(غاروالے) کہنے کی وجہ توظاہر ہے کہ انہوں نے غارمیں پناہ لی تھی ۔ لیکن ان کو”رقیم والے” کیوں کہتےہیں ؟ اس بارے میں مفسرین کی رائیں مختلف ہیں بعض حضرات کاکہنایہ ہے کہ “رقیم ” اس غار کے نیچے والی وادی کانام ہے ۔ بعض کہتے ہیں ”رقیم “تختی لکھے ہوئے کتبے کوکہتے ہیں اورا ن حضرات کے انتقال کے بعد ان کے نام ایک تختی پر کتبے کی صورت میں لکھوادیے گئےتھے ۔اس لیے ان کو”اصحاب رقیم “ بھی کہاجاتاہے ۔ تیسرے بعض حضرات کاخیال ہے کہ یہ اس پہاڑ کانام ہے جس پر وہ غار واقع تھا۔“
( از گلدستہ قرآن)

اپنا تبصرہ بھیجیں