فتویٰ نمبر:841
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
ایک صاحب اپنی بیوی کےانتقال کے بعد دوسرا نکاح کرنا چاہتےہیں مسئلہ یہ ہے کہ دوسری بیوی کی بہو ساتھ رہتی ہے اب اس بہو کا اپنی ساس کے دوسرے شوہر سےپردہ ہوگا کہ نہیں ؟
اسی طرح ان صاحب کے اپنے بیٹی داماد بھی ہیں تو کیا داماد جو ہیں وہ اپنے سسر کی دوسری بیوی کے سامنے آسکتے ہیں یا ان کا پردہ ہوگا؟
والسلام
الجواب حامدۃو مصلية
بہو کا سوتیلے سسر (ساس کے دوسرے شوہر) سے شرعا پردہ ہوگا کیونکہ عورت کےلیے اس کے شوہر کا حقیقی باپ یعنی سسر محرم ہے ، سوتیلاسسر یعنی شوہر کا سوتیلا باپ محرم نہیں۔
اسی طرح داماد کا سوتیلی ساس( بیوی کی سوتیلی ماں) سے شرعا پردہ ہوگا کیونکہ آدمی کے لیے اس کی بیوی کی ساس (حقیقی ماں ) محرم ہے، بیوی کی سوتیلی ماں محرم نہیں ،البتہ اگر بہو ساتھ رہتی ہے ، جس سے سوتیلے سسر سے پردہ کرنے میں حرج یا فتنے اور لڑائی جھگڑے کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں ساتھ رہنے کی وجہ سے بہو کے لیے چہرہ کھولنے کی گنجائش ہے لیکن پورا جسم بڑی چادر سے ڈھکا ہوا ہو اور اگر پردہ کرنے میں حرج نہ ہو یا کسی فتنے کا خوف ہو تو پردہ کرنا لازم ہے کیونکہ بہرحال سوتیلا سسر نا محرم ہے ان سے پردہ لازم ہے ؛
اسی طرح سوتیلی ساس اگر بڑی عمر کی ہیں تو ان کے لیے بھی داماد کے سامنے چہرہ کھولنے کی گنجائش ہوگی البتہ اگر حرج نہ ہو ، تو ان کو بھی پردہ کرنا چاہیے۔
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {وأحل لکم ما روآء ذٰلکم} ۔ (سورۃ النسآء :۲۴)
(۲) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : {وأحل لکم ما ورآء ذٰلکم} ۔ أی ما وراء ما حرمہ اللہ تعالی ۔۔۔۔۔۔ ویجوز الجمع بین امرأۃ وبنت زوج کان لہا من قبل ، أو بین امرأۃ وزوجۃ کانت لأبیھا ، وھما واحد ، لأنہ لا رحم بینھما فلم یوجد الجمع بین ذواتی رحم ۔
(۳/۴۳۷ ، کتاب النکاح)
(٣)وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔ (سورة النور : ٦٠)
( فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ ) يقول: فليس عليهنّ حرج ولا إثم أن يضعن ثيابهنّ، يعني جلابيبهنّ، وهي القناع الذي يكون فوق الخمار، والرداء الذي يكون فوق الثياب، لا حرج عليهن أن يضعن ذلك عند المحارم من الرجال، وغير المحارم من الغرباء غير متبرجات بزينة.( تفسیر الطبری : ٣٥٦)
۔ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وکذا یجوز بین امرأۃ وبنت زوجہا فإن المرأۃ لو فرضت ذکرا حلت لہ تلک البنت بخلاف العکس ۔ (۱/۲۷۷، القسم الرابع ، المحرمات بالجمع)
ما في ’’ مجمع الأنہر ‘‘ : بخلاف الجمع بین امرأۃ وبنت زوجہا فإنہ یجوز لأنہ لو فرضت المرأۃ ذکراً جاز لہ أن یتزوج بنت الزوج لأنہا بنت رجل أجنبی ۔ (۱/۴۸۰، کتاب النکاح ، باب المحرمات ، المبسوط للسرخسي :۴/۲۳۵ ، قبیل باب النکاح الصغیر والصغیرۃ)
( امداد الاحکام : ۳/۲۵۰)
(٤) ہاں البتہ پہلی بیوی سے پیدا شدہ لڑکی کا شوہر طاہرہ کے لیے محرم نہیں ہے کیونکہ اس میں محرم ہونے کی کوئی علت نہیں پائی جارہی ہاں البتہ گھر اور کنبے کے لوگوں میں فتنہ کا خطرہ ہو تو چہرہ اور ہاتھ کا پردہ لازم نہیں ۔
(فتاوی قاسمیہ : ٢٣\٥٥٦)
🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸
✍بقلم : بنت عبد الباطن عفی عنھا
قمری تاریخ: ٢٢ذی الحجہ ١٤٣٩ھ
عیسوی تاریخ:٣ ستمبر ٢٠١٨ ع
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
➖➖➖➖➖➖➖➖
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
📩فیس بک:👇
https://m.facebook.com/suffah1/
====================
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک👇
===================
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
===================
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: