حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا”کہ میں نے اپنے نانا جان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کو خواب میں دیکھا ہے٫جس میں مجھے “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی طرف سے حکم دیا گیا ہے”میں اس حکم کی بجا آوری کے لئے جارہا ہوں٫خواہ مجھ پر کچھ بھی گزر جائے-“
“عبداللہ بن جعفر رضی اللّٰہ عنہ اور”یحییٰ بن سعید” نے پوچھا کہ “وہ خواب کیا ہے؟فرمایا”آج تک میں نے وہ خواب کسی سے بیان نہیں کیا ہے نہ کروں گا٫یہاں تک کہ میں اپنے پروردگار سے جا ملوں-(کامل ابنِ اثیر)
بلآخر” حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کو اپنی جان اور اولاد کے خطرات اور سب حضرات کے خیرخواہانہ مشوروں نے بھی انکے عزمِ مصمم میں کوئ کمزوری پیدا نہ کی٫اور وہ کوفہ کے لئے روانہ ہوگئے-
“ابنِ زیاد” کی طرف سے “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے مقابلہ کی تیاری”
“یزید”نے”ابنِ زیاد” کو کوفہ” پر حاکم ہی اس لئے مقرر کیا تھا کہ وہ “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے مقابلے کے لئے سخت دل واقع ہوا تھا- اس کو جب “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کی روانگی کی اطلاع ملی تو اس نے اپنی پولیس کے افسر”حصین بن نمیر”کو آگے بھیجا کہ قادسیہ پہنچ کر مقابلہ کی تیاری کرے-
“مقام “حاجر “پہنچ کر “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” نے ایک خط لکھ کر “قیس بن مسرہد” کے ہاتھ “اہل کوفہ” کے لئے روانہ کیا٫خط میں اپنے آنے کی اطلاع دی اور جس کام کے لئے”اہل کوفہ” نے بلایا بلایا تھا٫اس میں پوری کوشش کرنے میں کی ہدایت کی-
قاصد جب یہ خط لیکر “قادسیہ” تک پہنچا تو” ابنِ زیاد”کی پولیس نے “انکو” گرفتار کرکے “ابنِ زیاد” کے پاس بھیج دیا- “ابنِ زیاد” نے”انکو” حکم دیا کہ”محل کی چھت” پر چڑھ کر(العیاذ باللہ) “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” پر”سب و شتم”اور “لعن طعن کریں-
“قیس بن مسرہد”چھت پر چڑھ گئے اور”اللہ تعالیٰ” کی “حمدوثنا”بیان کی اور بآواز بلند کہا کہ
“اے اہل کوفہ”حسین ابن علی رضی اللّٰہ عنہ” رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی لخت جگر “حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا” کے صاحب زادے”اور اس وقت “خلق اللہ” میں سب سے بہتر ہیں-
میں تمہاری طرف ان کا بھیجا ہوا قاصد ہوں٫ وہ “مقام حاجر”تک پہنچ چکے ہیں “تم بڑھ کے انکا استقبال کرو-
اس کے بعد”ابنِ زیاد،” کو برا بھلا کہا اور “حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ” کے لئے”دعائے مغفرت، کی-
“ابنِ زیاد،” انکی” دیدہ دلیری” اور جانبازی پر حیران رہ گیا اور حکم دیا کہ “قصر”کی بلندی سے نیچے پھینک دیا جائے-
“ظالموں” نے اس کے حکم کی تعمیل کی”قیس”نیچے گر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور “شہادت” پائ-
(جاری ہے)
“حوالہ: شہید کربلا”
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان-
“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین”