اس فہرست میں اردو زبان کے مشہور شعراء کے نام ، جائے پیدائش ، تاریخِ پیدائش و وفات ، ضرب المثل یا مشہور اشعار اور شعر و ادب سے متعلق کوئی اہم یا مشہور بات پیش کی گئی ہے۔
امیر خسرو دہلوی (آگرہ ، 1253ء – 1325ء)
انھی کی طرف دنیائے اردو کا پہلا شعر منسوب کیا جاتا ہے۔
شعر:
زحالِِ مسکیں مکن تغافل دو راہ نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں! نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ولی دکنی (دکن ، 1668ء – 1708ء)
انھیں اردو غزل کا باوا آدم نہ سہی، غزل کو نئے معانی اور نئے راستوں پر ڈالنے کا معمار اول ضرور کہا جاسکتا ہے۔
شعر:
عجب کچھ لطف رکھتا ہے شبِ خلوت میں گل رخ سوں
خطاب آہستہ آہستہ، جواب آہستہ آہستہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میر تقی میؔر (آگرہ ، 1723ء – 1810ء)
انھیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔
شعر:
میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں
جسے ابر ہر سال روتا رہے گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سید انشاء اللہ خان انشاء (مرشد آباد ، 1756ء – 1817ء)
انھوں نے اردو کو زبان و بیان کے قواعد پر مشتمل “دریائے لطافت” سے سیراب کیا ہے۔
شعر:
ہرچند کہ بولتے نہیں وہ
باہم پر چھیڑ چھاڑ سی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی(دہلی ، 1751ء – 1825ء)
لفظ “اردو” شاعری میں پہلی بار انھی کے شعر میں آیا ہے۔
شعر:
خدا رکھے زباں ہم نے سنی ہے میر و مرزا کی
کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی! اردو ہماری ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نظیر اکبر آبادی (دلی ، 1740ء – 1830ء)
انھیں اردو کا پہلا عوامی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔
شعر:
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں،مت دیس بدیس پھر مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شترکیا کوئی پلا سر بھارا
کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر،کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خواجہ حیدر علی آتش (فیض آباد ، 1778ء – 1846ء)
انھوں نے نہایت سادہ زندگی بسر کی ۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔
شعر:
زمینِ چَمَن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شیخ محمد ابراہیم ذوؔق (دلی ، 1789 – 1854)
انھیں شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدے کے صلے میں “ملک الشعراء خاقانی ہند” کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپے تک پہنچ گئی تھی۔
شعر:
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مرزا اسد اللہ خان غؔالب (آگرہ ، 1797ء – 1869ء)
کہا جاتا ہے کہ اٹھارھویں صدی میر تقی میر کی تھی ، انیسویں صدی غالب کی ، جبکہ بیسویں علامہ اقبال کی۔
شعر:
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
امیر مینائی (لکھنو ، 1828ء – 1900)
ان کا سب سے بڑا کارنامہ “امیر اللغات” ہے ، اس کی دو جلدیں الف ممدودہ و الف مقصورہ تک تیار ہو کر طبع ہوئی تھیں کہ ان کا انتقال ہوگیا۔
شعر:
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نواب مرزا خاں داغؔ دہلوی (دہلی ، 1831ء – 1905ء)
انھیں جتنے شاگرد میسر آئے اتنے کسی بھی شاعر کو نہ مل سکے۔ اس کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔
شعر:
وہ جب چلے تو قیامت بپا تھی چار طرف
ٹھہر گئے تو زمانے کو انقلاب نہ تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خواجہ الطاف حسین حاؔلی (پانی پت ، 1837ء – 1914ء)
انہوں نے آنے والے ادیبوں کے لیے ادبی تنقید، سوانح نگاری، انشاء پردازی اور وقتی مسائل پر اظہار خیال کرنے کے بہترین نمونے یادگار چھوڑے ہیں۔
شعر:
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسماعیل میرٹھی (میرٹھ ، 1844 – 1917ء)
انھوں نے اپنی شاعری کو زیادہ تر بچوں اور بڑوں کی تربیت کا ذریعہ بنایا تھا۔
شعر:
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اکبر الہ آبادی (الہ آباد ، 1846 – 1921ء)
ان کی شہرت ظرافت آمیز اور طنزیہ اشعار پر مبنی ہے ، مخزن لاہور نے انھیں “لسان العصر” کا خطاب دیا تھا۔
شعر:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اصغر حسین گونڈوی (گونڈہ 1884ء – 1936ء)
متقی اور شریف النفس انسان تھے ، کئی سال تک ایک رسالے”ہندوستانی”کی ادارت سے وابستہ رہے۔
شعر:
ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ رُوحانیاں برسوں
رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مُغاں برسوں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حسرت موہانی (موہان اناؤ ، 1875ء – 1951ء)
انھیں “رئیس المتغزلین” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
شعر:
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سیماب اکبرآبادی (آگرہ ، 1882 – 1951)
ان کی لکھی 70 کتابوں میں 22 شعری مَجمُوعے ہیں ، ان کے تقریبا 370 شاگرد تھے۔
شعر:
دیکھتے کے دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاؤں گا
دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (سیالکوٹ ، 1877ء – 1938ء)
انھیں عظیم مفکر اور شاعرِ مشرق تسلیم کیا جاتا ہے۔
شعر:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اختر شیرانی (ٹونک ، 1905ء – 1948ء)
یہ پہلے اردو شاعر ہیں جنھوں نے اپنی شاعری میں عورت سے خطاب کیا۔ انھوں نے نسوانی حسن کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا تھا۔
شعر:
وہ روتی ہے تو ساری کائنات آنسو بہاتی ہے
وہ ہنستی ہے تو فطرت بے خودی سے مسکراتی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شیر محمد خان ابنؔ انشا (جالندھر ، 1927 – 1978ء)
ان کی شاعری خوب اور مزاح نگاری خوب تر تھی۔
شعر:
انشاء جی! اُٹھو اب کُوچ کرو، اس شہر میں جی کا لگانا کیا
وحشی کوسکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
احسان دانش (مظفر گڑھ ، 1914ء – 1982ء)
یہ مزدور شاعر کہلاتے ہیں ، ان کی شاعری قدرت کی اور اس ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں انھوں نے مزدوری کی۔
شعر:
سبزۂ پامال سے بھی وجہِ بربادی نہ پوچھ
بات چل نکلی تو پھر یہ باغباں تک جائے گی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فیض احمد فیؔض (سیالکوٹ ، 1911ء – 1984ء)
انھیں غالب و اقبال کے بعد اردو کا سب سے بڑا شاعر کہا جاتا ہے۔
شعر:
مقامِ فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سید محمد مہدی رئیؔس امروہوی (امروہہ یوپی ، 1914 – 1988ء)
ان کی ادارت میں “جنگ” اخبار پاکستان کا کثیر الاشاعت روزنامہ بن گیا۔ صحافتی کالم کے علاوہ آپ کے قصائد ، نوحے اور مثنویاں اردو ادب کا خزانہ ہیں۔
شعر:
فریاد یہ سب کے دلِ مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ساحر لدھیانوی (لدھیانہ ، 1921ء – 1980ء)
ان کی شاعری نے انڈین فلم انڈسٹری میں سب سے زیادہ نام پایا ہے۔
شعر:
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پروین شاکر (کراچی ، 1954ء – 1994ء)
انھیں دور جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔
شعر:
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اقبال عظیم (میرٹھ ، 1913 – 2000ء)
انھوں نے بے حد ایمان افروز نعتیں عطا کی ہیں۔
شعر:
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
احمد راہی (امرتسر ، 1923ء – 2002ء)
انھوں نے پنجابی اور اردو میں متعدد منظر نامے، مکالمے اور گانے لکھے ہیں۔
شعر:
دل کے سنسان جزیروں کی خبر لائے گا
درد پہلو سے جدا ہو کے کہاں جائے گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
احمد ندیم قاسمی (خوشاب ، 1916ء – 2006ء)
انھوں نے پچاس سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں۔
شعر:
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں ، سمندر میں اتر جاؤں گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
احمد فراؔز (کوہاٹ ، 1931ء – 2008ء)
ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔
شعر:
اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھی خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ادا جعفری (بدایوں ، 1924ء – 2015ء)
ان کا شمار طویل مشقِ سخن اور ریاضت فن کے اعتبار سے صف اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے۔
شعر:
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی ، برسر الزام ہی آئے
===========================
(یہ تقریبا 30 شعراء کی فہرست ہے ، یقینا بہت سے شعراء رہ گئے ہیں جن کا تذکرہ ان شاء اللہ دھیرے دھیرے شامل کیا جاتا رہے گا۔ 🙂 )
===========================
طالب دعا:
محمد اسامہ سَرسَری