زندگی میں جائیداد کی تقسیم

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ زندگی میں اپنی ملکیت اپنی اولاد، بیوی ، والد ، بہنوں اور بھائیوں کو جتنا چاہیں دے سکتے ہیں وہ ہبہ اورعطیہ کہلائے گا اور ذندگی میں ہی اس مال پر قبضہ دینا ضروری ہوگا ۔

البتہ میراث کے طریقہ پر تقسیم کرنا چاہیں تو والد کو 1/6 ، بیوی کو اولاد کی موجودگی میں 1/8،اور ایک بیٹی کا نصف 1/2حصہ ہوگا مابقیہ حصہ بھی والد کا ہی ہوگا کیونکہ بہن بھائی کاوالد کی موجودگی میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ۰ 250000 کے کل مال کے 8 حصے کیے جائیں گے اور ان کی تقسیم یوں ہوگی:

↙️ والد کے حصے : 3

↙️ بیوی کے حصے : 1

↙️ بیٹی کے حصے : 4

رقم کے اعتبار سے حصے

↙️ والد کا حصہ: 937500

↙️ بیوی کا حصہ: 312500

↙️ بیٹی کا حصہ: 12,50,000

چونکہ یہ ہبہ ہے اس لیے جس کو بھی جو کچھ بھی دیں با قائدہ تقسیم کرکے مالکانہ قبضہ کے ساتھ دیں اس کے بغیر ہدیہ مکمل نہیں ہوگااور اس چیز میں ان کی ملکیت نہیں آئے گی۔

================
حوالہ جات

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ‎(سورةالنساء :11)

2۔”وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة، رواه ابن ماجه“۔
(سنن ابن ماجہ ، باب الوصایا، الفصل الثالث، ج:1، ص:266 ط: قدیمی)

ترجمہ :’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔‘‘

3۔”وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» وفي رواية …… قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم“۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)
4.لا بأس بتفضیل بعض الأولاد۔۔۔وکذا في العطایا، إن لم یقصد بہ الإضرار وإن قصدہ فسوی یعطي البنت کالابن عند الثاني، وعلیہ الفتوی، وقال الشامي: قولہ ”وعلیہ الفتوی“ أي قول أبي یوسف من أن التنصیف بین الذکر والأنثی أفضل من التثلیث الذي ہو قول محمد ( درمختار مع الشامی: ۸/۵۰۳، ط: زکریا)

5۔”فالأول الأب وله ثلاثة أحوال۔۔۔۔والتعصيب المحض وذلك أن لا يخلف غيره فله جميع المال بالعصوبة۔“(درالمختار، کتاب الفرائض ، الباب الثاني فی ذوي الفروض جلد ۶ ص : ۴۴۸ ط : دارالفکر)

واللہ خیر الوارثين

12 ربیع الاول 1445
15 ستمبر 2024

اپنا تبصرہ بھیجیں