سوال:محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے پاس کچھ رقم ہے جو کہ انشورنس کی ہے چونکہ انشورنس سود ہے میں اس رقم کو استعمال نہیں کرنا چاہتی۔ آپ مجھے اس رقم کا صحیح استعمال بتا دیں۔ کیا میں اس رقم سے کسی کو گھر دلا سکتی ہوں یا کسی کی شادی میں دے سکتی ہوں؟
الجواب باسم ملهم الصواب
وعلیکم السلام و رحمة الله!
انشورنس پالیسی لینے پر اصل رقم کے علاوہ جو اضافی رقم ملتی ہے اس کو وصول کرنا اور اس کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔
مذکورہ صورت میں اگر آپ نے انشورنس کی تمام رقم وصول کرلی ہے تو آپ کے لیے صرف اپنی جمع کروائی ہوئی اصل رقم کے بقدر حلال ہوگی،اصل رقم کے علاوہ زائد رقم کسی غریب (چاہے وہ رشتہ دار ہو یا نہ ہو) پر ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہے،گھر بھی دلایا جاسکتا ہے، اور ایک قول کے مطابق حرام مال کو صدقہ کرنے میں مالک بنانا کی شرط نہیں اس قول کا اعتبار کرکے کوئی مستحق کو رقم دیے بغیر خود اس کی شادی میں خرچ کردے تو اس کی بھی گنجائش ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1.”والسبيل في الكسب الخبيث التصدق”. (المبسوط للسرخسي، 12/ 172)
2.“فان علم عين الحرام لا يحل له و يتصدق به بنية صاحبه.”
الدر المختار وحاشية ابن عابدين ,رد المحتار,5/ 99)
3.“کسب خبیث (اموال واجبة التصدق) کے تصدق میں تملیک واجب نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ صدقہ اصل مالک کی طرف سے بطور صدقہء نافلہ کے ہوتا ہے اور صدقات نافلہ میں صدقات جارہی بھی داخل ہیں، جن میں تملیک نہیں ہوتی۔ (فتاوی عثمانی 140/3)
🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸
بقلم:
قمری تاریخ: 23 محرم 1443ھ
عیسوی تاریخ: 1 ستمبر 2021