انسانی اعضأ کی پیوند کاری کا حکم

سوال:میرا بیٹا سرجری کی تعلیم حاصل کر رہا ہے ۔آج کل اعضاء کی پیوند کاری پر کام کر رہا ہے ۔میں نے سنا ہے کہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری جائز نہیں ۔کیا یہ درست ہے ۔تو کیا اس کی تعلیم حاصل کرنا بھی ناجائز ہے ۔براہ مہربانی رہنمائی فرماۓ تاکہ میں اپنے بیٹے کو اس کام سے روک لوں ۔
الجواب باسم ملھم الصواب
ٹرانسپلانٹیشن کی موجودہ دور میں مختلف صورتیں ہیں:
1۔ کسی انسانی عضو کی جگہ کسی غیر ذی روح چیز مثلاً لوہے یا پیتل وغیرہ کا عضو لگایا جائے۔
2۔ انسانی عضو کی جگہ کسی حلال جانور مثلاً بکری وغیرہ کا عضو لگایا جائے۔
3۔انسانی عضو کی جگہ کسی حرام جانور مثلاً کتا یا خنزیر وغیرہ کا عضو لگایا جائے ۔
4۔ انسان کے اپنے جسم کا کوئی حصہ ایک جگہ سے نکال کر دوسری جگہ لگایا جائے۔
5۔ کسی تندرست انسان کا کوئی عضو نکال کر مریض انسان کے جسم میں پیوند کر دیا جائے ۔
ان میں پہلی ،دوسری اور چوتھی صورت جائز ہے۔اور تیسری صورت میں تفصیل ہے کہ اگر اضطرار کی حالت ہو تو خنزیر کے علاوہ حرام جانوروں کے اعضاء کا استعمال جائز ہے، خنزیر نجس العین ہے نیز اس کا بدل دوسرے جانور بھی موجود ہیں، اس لیے اس کا استعمال جائز نہیں۔ پانچویں صورت میں اختلاف ہے، ہندوستان اور پاکستان کے اکثر علماء اس کو نا جائز اور ہندوستان کے بعض علماء اور عرب علماء چند شرائط کے ساتھ جائز کہتے ہیں، بہرحال انسانی زندگی کو بچانے اور ابتلاءے عام کے پیش نظر ان علماء کے نزدیک چند شرائط کے ساتھ اس صورت کے جواز کی گنجائش ہے، لیکن پھر بھی خرید و فروخت سے بچنا ضروری ہے کیونکہ انسانی اعضاء کی بیع جائز نہیں، نیز اگر آپ بعض علماء کے قول پر عمل کرکے جواز پر عمل کرتے ہیں تو آپ پر توبہ استغفار اور صدقہ خیرات کرنا لازم ہے۔
وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
1۔حتی الامکان کوشش کی جائے کہ مسلمان کا عضو کسی مسلمان میں لگایاجائے ۔
2۔کسی انسان کا ایسا عضو نہ نکالا جائے جس پر حیات موقوف ہو،جیسے دل وغیرہ۔
3۔کسی ایسے عضو کی منتقلی حرام ہے جس کے جدا کرنے سے انسان کسی اساسی وظیفہ سے محروم ہو جائے جیسے آنکھیں وغیرہ۔
4۔ معتمد اور ماہر اطباء بتائیں کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا علاج ممکن نہیں۔
5۔ جس کا عضو نکالا جا رہا ہے اس کی طرف سے اجازت ہو یا اگر قریب الموت یا مردہ ہو تو اس کے ورثاء کی طرف سے اجازت ہو۔
6۔ زندہ جسم سے وہ عضو لیا جائے جس کے بارے میں ڈاکٹروں نے کہا ہو کہ اسکی کوئی خاص ضرورت نہیں۔
7۔عضو کی منتقلی کے بعد جسم میں کوئی بد نما تبدیلی واقع نہ ہو جو مثلی کے مشابہ ہو۔
8۔ کسی مسلمان کا عضو کسی کافر کو ہرگز نہ دیا جائے ۔
9۔ اگر کوئی لاوارث میت ہو تو اس کے عضو کا انتقال جائز نہیں۔
10۔ جس انسان کو عضو دیا جائے اس کے بارے میں تشفی ہو کہ اس عضو کے انتقال سے شفا ہو جائے گی۔
(ماخوذ از تبویب:311/87)
لہذا ان شرائط کا خیال رکھتے ہوئے سرجری کی تعلیم حاصل کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1:(سورۃالبقرہ:آیت173)
“انما حرم علیکم المیتۃوالدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا إثم علیہ ان اللہ غفور رحیم

2: المشکوۃ المصابیح :(379/2)
عن عرفجۃبن سعد قطع أنقہ یوم الکلاب فاتخذ أنفا من ورق فأتتن علیہ فأمرہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم أن یتخذ أنفا من الذھب

3:فی الھندیۃ (ج 5 ص354طبع رشیدیہ)
قال محمد :لا بأس بالتداوی بالعظم إذاکان عظم شاۃأو بقرۃأو بعیر أو فرس أو غیرہ من الدواب آلأعظم الخنزیر والآدمی فإنہ یکرۃالتداوی بھما۔

4:فی الشامیۃ:(373/6)
“إنما الرخصۃفی شعر بنی آدم تتخذہ المرأۃلتزید فی قرونھا ، و ھو مروی عن أبی یوسف ، وفی الشامیۃ: لا بأس للمرأۃ أن تجعل فی قرونھا وذواءبھا شئیا من الوبر”
5:فتاوی عثمانی( ج 4ص224 کتاب الطب والتداوی)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
تاریخ:10/12/24
8جمادی الاخری1446

اپنا تبصرہ بھیجیں